وزارت خارجہ ہمارے ملک کا چہرہ ہے اور اسلام آباد پہنچنے کے لیے دفتر خارجہ پہلا زینہ ہے‘ سارے فیصلے یہی ہوتے ہیں کہ پاکستان نے کہاں جانا ہے اور کسے پاکستان آنا ہے وزارت خارجہ کی جوہری سفارت کاری کا فیصلہ تھا کہ پاکستان ملائشیاء سمٹ میں میں شریک نہیں ہوا‘ اگروزارت خارجہ کے فیصلے موچی گیٹ میں ہوتے تو کشمیر آج آزاد بھی ہوچکا ہوتا وزارت خارجہ کی جوہری عرق ریزی سے ملنے والی اطلاع ہے کہ چین‘ قطر‘ ایران‘ امریکہ‘ سعودی عرب‘ افغانستان اور بھارت اس وقت خصوصی طور پر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محور ملک ہیں‘ روائتی طور پرہمیں ایران اور قطر کے حوالے سے سعودی عرب کے تحفظات کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے اور اب ہمیں ملائشیاء اور ترکی کے بارے میں بھی اس کے تحفظات کا خیال رکھنا پڑ رہا ہے‘ چین اور امریکا کے ساتھ تعلقات کے لیے ہمیں توازن سے چلتا پڑتا ہے جب کہ بھارت کے معاملے میں ہمارا خارجہ پالیسی اور تذویراتی سوچ اور ہمارا ذہن بہت واضح ہے لیکن کشمیر کے موضوع پر ہمیں ہماری توقع کے مطابق حمائت نہیں مل رہی اس کے باوجود ہم سے جو بھی ممکن ہے وہ ہم کشمیر کے لیے کرتے جارہے ہیں ابھی حال ہی میں سعودی وزیر خارجہ پرنس فیصل بن فرحان السعودایک روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے اس روز 5اگست کو نئی دہلی کے حکمرانوں نے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے متنازع علاقے جموں و کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کرفیو اور لاک ڈاؤن کے اقدامات کے ساتھ پوری وادی کو ہولناک عقوبت خانے کا جو روپ دیا اُس روپ کا یہ 144واں دن تھا سعودی وزیر خارجہ کی پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں میں دو طرفہ تعلقات، باہمی دلچسپی کے معاملات اور علاقائی امور پر تبادلہ خیال ہوا جبکہ کشمیر سمیت اہم علاقائی امور پر مشاورت ”جاری“ رکھنے پر بھی اتفاق کیا گیا سعودی وزیر خارجہ دونوں ملکوں کے مابین سفارتی تعلقات اور تعاون پر تبادلہ خیال کر کے واپس روانہ ہو گئے۔شہزادہ فیصل سعودی شاہی خاندان کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد ہیں وہ جرمنی میں پیدا ہوئے، اور امریکہ میں تعلیم حاصل کی ان کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس بلانے کا عندیہ دیا گیا ہے ملائشیاء سمٹ کے بعد پاک سعودی تعلقات میں یہ اہم پیش رفت ہے حقائق یہ ہیں کہمسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں کرنے کی ہماری تمام تر کوششیں پے در پے ناکام ہو رہی ہیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اپنے حق میں فیصلہ لینے کی حسرت بھی ناتمام رہی کشمیر کے معاملے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کا بہترین ذریعہ کوالالمپور سمٹ تھا، 52 ممالک کے وفود کی شرکت کے ساتھ یہ تقریباً او آئی سی کے سربراہی اجلاس کی سطح کا ہی غیر معمولی اہمیت کا حامل اکٹھ تھا جسے دنیا بھر میں اہمیت ملی جن تین ممالک نے مسئلہ کشمیر پر کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ہمارا بھرپور ساتھ دیا، ان تینوں کے سربراہان ہمارے وزیراعظم کے دائیں بائیں ہوتے تو کشمیر پر ہمارے موقف کو کس قدر سنوائی اور پذیرائی مل سکتی تھی اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے یہ موقع بھی دباؤ کے آگے سرنگوں ہو کر ضائع کر دیا گیا اور اس سے مودی اور بھارت کو واک اوور ملا اور یہ پہلا موقع نہیں جب بھارت کو واک اوور ملا ہو اس سے قبص او آئی سی کا اجلاس ہم اس لیے نہیں بلا پائے کہ خلیجی ممالک راضی نہیں ہوئے تھے بلکہ ہمیں مشورہ دیا کہ اسے امہ کا مسئلہ بنانے سے گریز کیا جائے کوالالمپور سمٹ میں کشمیر کا ذکر ہوا مگر ہماری وہاں نمائندگی نہیں تھی حکومت کا یہ سفارتی نکتہ نظر سمجھ سے بالاتر ہے بس یوں سمجھ لیں دفتر خارجہ کشمیر جیسے معاملے پر ڈھیلی ڈھالی، بے جان مہم چلائے گا لیکن جب بھی مثبت خبر ملے گی اسے اپنا کارنامہ بنا کر پیش کرے گا ابھی چند ماہ قبل کشمیر پہ سفارتی و سیاسی کوششوں کو تیز کرنے کیلئے ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس میں تین سویلینز کے ساتھ ڈی جی ایم او اور ڈی جی آئی ایس پی آر بھی جس کے ممبرز تھے اس کمیٹی کے آج تک کتنے اجلاس ہوئے؟ ان اجلاسوں میں کیا فیصلے ہوئے؟ ان فیصلوں کے کیا نتائج نکلے؟ مستقبل کیلئے اس کمیٹی نے کیا لائحہ عمل ترتیب دے رکھا؟ پانچ ماہ ہونے والے ہیں پارلیمنٹ‘ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں کسی جماعت کے پارلیمانی لیڈرز نے آج تک یہ سوال نہیں اٹھایا کہ حکومت نے اس کمیٹی کو کن سات پردوں میں چھپا کر وزارت خارجہ کے کس تہہ خانے میں ڈال رکھا ہے‘ یہ دلیل کسی بھی طرح رد نہیں کی جاسکتی کہ ہماری وزارت خارجہ ہی ایک بڑی رکاوٹ ہے آزاد خارجہ پالیسی کے راستے کی دوسری بڑی رکاوٹ‘ امریکہ اور تیسری بڑی رکاوٹ امریکہ کے پیچھے کھڑے مسلم ممالک‘ یہ ٹرائکا کشمیر کی حقیقی آزادی کی راہ میں رکاوٹ ہے اس ٹرائکا کے ایک نمائندے صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان کہتے ہیں کشمیر پر کوئی سودا نہیں ہوا وہ یہ نہیں بتاتے کہ اگر سودا نہیں ہوا تو مقبوضہ کشمیر کو بھارت نے انتظامی طور پر کیوں وادی‘ جموں اور لداخ تین حصوں میں تقسیم کردیا؟ اس پر حکمران جماعت کی خاموشی سودا نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا ہماری حیثیت یہی ہے کہ کوئی بھی ہمیں پانچ ارب ڈالر کی امداد کے بدلے خاموش کرادے سعودی عرب اور یو اے ای سے اربوں ڈالر کا قرضہ پکڑ کر ہم نے دونوں ممالک سے پانچ ارب ڈالر اپنے اکاؤنٹ میں رکھوا رکھے ہیں اور دعوی ہے کہ ملکی معیشت مضبوط ہوگئی ہے اب یہ امداد قرضے میں تبدیل ہو رہی ہے اور اصل زر کے ساتھ ہمیں سود بھی ادا کرنا ہوگا برادرانہ تعلقات پر مبنی سفارت کاری کا عالم یہ ہے کہ سعودیوں سے ملاقات کے لیے تین دن منت و سماجت کرنا پڑی ایران، ترکی اور ملائیشیا وہ تین ممالک ہیں جنہوں نے ڈٹ کر کشمیر کے معاملے پر پاکستان کا ساتھ دیا کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر آواز اٹھائی ان تینوں حکومتوں کو او آئی سی کے عضو معطل ہونے کا احساس ہے اسی لیے تو پاکستان کے ساتھ مل کر نئے اسلامی بلاک کی تشکیل کا قدم اٹھانا چاہا مگر ہمارے حکمران ملکی معیشت کو غیرملکی امداد کے علاوہ انڈوں مرغیوں اور کٹوں سے چار چاند لگانا چاہتے ہیں پاکستان کے اس فورم پر نہ جانے سے سارا نقصان ہمارا ہی ہوا‘ جسے ہم چھپا رہے تھے وہ اردگان اور مہاتیر نے سب کچھ کھول کر رکھ دیا‘
