سروسز ایکٹ ترمیمی بل کی حمائت کے بدلے میں مُقتدر حلقوں نے پیپلز پارٹی کو اگلے سیٹ اپ میں بھی سندھ حکُومت اور ”نُون” لیگ کو پنجاب دینے کی یقین دہانی کروائی ھے جبکہ مرکز میں کسی ”ان ھاؤس” تبدیلی کا باب بند ھو گیا ھے اور سویلین و عسکری قیادت پر مَشتمل موجُودہ سیٹ اپ ہی اپنی مُدّت پُوری کرے گا. اس کے علاوہ نوازشریف کی جماعت کے ناراض رہنما، سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں کی مُلکی سیاسی منظر نامے پر دوبارہ ”انٹری” کا امکان ھے جنہیں پارٹی میں اھم ذمہ داری دیئے جانے کا امکان ھے، جو مُلک کے سیاسی اُفق پر جلد نمُودار ہو کر سرگرم ھوں گے اور پارٹی صدر شہبازشریف کے ھمراہ مسلم لیگ(ن)کو لیڈ کریں گے.ذرائع نے مزید انکشاف کیا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو عُہدہ پر برقرار رکھنے کی غرض سے درکار قانُون سازی کیلئے پارلیمنٹ میں جو بل لایا گیا، ”نُون لیگ” کی طرف سے اُس کی غیر مشرُوط حمائت کی بابت پارٹی صدر شہباز شریف اور قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف کے پیشگی بیان کو مُقتدر حلقوں نے یکسر مُسترد کرتے ھُوئے تقاضا کیا ”ھمیں اس بارے نوازشریف کا بیان چاہیئے” ذرائع کا کہنا ھے کہ دوٹوک تقاضا کیا گیا تھا کہ اس بابت ہر صُورت نوازشریف کا بیان آنا چاہیئے، اس پر مُتذکرہ ترمیمی بل کی منظُوری کا عمل طویل کیا گیا مریم نواز گرُوپ کی مزاحمت کی وجہ سے بھی یہ عمل طویل ہوا نواز شریف کے واضح پیغام کی وجہ سے تحریک انصاف بھی قومی اسمبلی کی پُوری کارروائی طویل کرنے پر مجبور ہوئی نوازشریف نے جب ہامی بھری مسلم لیگ(ن) کی پارلیمانی پارٹی کو بھی آگاہ کردیا گیا ” اب مریم نواز کو بھی بیرون ملک بھجوایا جاسکے گا اسی طرح آصف زرداری نے بھی 2 باتوں کی یقین دہانی حاصل کی ھے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکُومت کو ڈسٹرب نہیں کیا جائے گا مسلم لیگ(ن) کو پنجاب دیا جائے گا اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے تمام زیر حراست رہنماؤں کو ضمانت پر رہا کر دیئے جانے اور کوئی نئے مُقدّمات نہ بنائے جانے کی یقین دہانی بھی کروائی گئی ھے اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف پہلے سے قائم مُقدّمات واپس نہیں لیے جائیں گے بلکہ اُنہیں go slow کی پالیسی کے تحت چلایا جائے گا حُکمران سیاسی قیادت کو بھی’فکس اپ کردیا گیا جسے NAB کے ترمیمی قانوُن لانے سمیت مُتعدّد اھم فیصلے لینے پر مجبُور ہونا پڑا سیاسی جماعتوں کے خلاف اس کریک ڈاؤن نے ہر سیاسی پارٹی کے اندر پارلیمانی نظام متاثر کیا ہے مسلم لیگ(ن) میں اس بُری طرح ٹُوٹ پھُوٹ ہُوئی کہ مریم نواز اور پرویز رشید نے شدید ردّ عمل دکھایا اور نواز شریف سے فوری رابطہ کرکے پارٹی عُہدوں سے مُستعفی ھونے کا اعلان کردیا تھا مُسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اراکین کی طرف سے بھی شدید ردّ عمل آیا مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جیسے ”نُون لیگ” کے مرکزی رہنماء تو پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شریک نہیں ہُوئے اگرچہ وہ پروڈکشن آرڈر پر اسمبلی سیشن میں آئے مگر اُنہوں نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا مسلم لیگ(ن) کے 25 ارکان پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے غیرحاضر تھے یہ مسلم لیگ(ن) میں پھُوٹ پڑ جانے اور بغاوت سے تعبیر کررہے ہیں.. پیپلز پارٹی کی صُورتحال پر اس سے بھی زیادہ سکتے کی کیفیت میں ہیں جس کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی یا پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اراکین کو ایسا ردّ عمل دکھانے کی بھی توفیق نہیں ہُوئی’ پارلیمنٹ میں ایسا مثالی اتّفاق رائے تو ضیاء الحق اور پرویز مشرف کو بھی نہیں ملا تھا اس سیاسی کریک ڈاؤن سے ایک طرف اسٹیبلشمنٹ انتہائی طاقتور ہو کر اُبھری ھے تو دُوسری طرف سیاسی جماعتیں، خاص کر بڑی سیاسی قیادت تشویشناک حد تک کمزور، مجبُور اور بودی لیڈرشپ کے طور پر بے نقاب ھُوئی ھے.
