نئے نوول کورونا وائرس کے خلاف دنیا میں سب سے جلد ویکسین تیار کرنے کے لیے برطانوی سائنسدانوں نے 500 رضاکاروں کی خدمات حاصل کرلی ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے اس ویکسین کی تیاری پر کام ہورہا ہے اور اس کے اگلے ہفتے سے شروع ہونے والے انسانی ٹرائل کے لیے 500 رضاکاروں کی خدمات حاصل کرلی گئی ہیں جن کی عمریں 18 سے 55 سال کے درمیان ہیں۔
برطانوی یونیورسٹی نے بڑے ہیمانے پر ابتدائی اور درمیانی مرحلے کے کلینیکل ٹرائل کے لیے رضاکاروں کی خدمات حاصل کرلی ہے جس میں بے ضرر اور تدوین شدہ وائرس استعمال کرکے نئے نوول کورونا وائرس کے خلاف انسانی مدافعتی ردعمل کو متحرک کیا جائے گا۔
تحریر جاری ہے
500 رضاکاروں پر ٹرائل اگلے ماہ تک وسط تک جاری رہے گا جس میں مجموعی طور پر 510 رضاکاروں کو 5 گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے۔
ان مین سے ایک گروپ کو پہلی بار ویکسین کے استعمال کے بعد فالو اپ بوسٹر ڈوز بھی دیا جائے گا۔محقق پروفیسر سارہ گلبرٹ نے بتایا کہ اس ویکسین کی تیاری کے لیے جس ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جارہا ہے، وہ پہلے ہی 10 مختلف اقسام کے طریقہ علاج کے لیے استعمال ہورہی ہے، مگر کورونا وائرس کے حوالے سے مختلف ممالک کے مختلف ٹیسٹ گروپس کی ضرورت ہے تاکہ درست نتائج کو یقنی بنایا جاسکے، کیونکہ یہ انفیکشن بہت تیزی سے دنیا کے ہر کونے میں پھیل رہا ہے۔تحقیقی ٹیم بڑے پیمانے پر ویکسین کی تیاری کے لیے اضافی فنڈنگ کی کوشش بھی کررہی ہے کیونکہ وہ 6 ماہ کے انسانی ٹرائل کے بعد وہ اس کی بڑے پیمانے پر پروڈکشن چاہتی ہے۔اس کے پیچھے یہ خیال موجود ہے کہ یہ ویکسین انسانوں کے لیے موثر ثابت ہوگئی اور خزاں میں اس کی پروڈکشن شروع ہوجائے گی، جس دوران 5 ہزار افراد پر آخری ٹرائل بھی مکمل کیا جائے گا اور طبی ورکرز ستمبر تک اس کا استعمال شروع کیا جاسکتا ہے۔درحقیقت آکسفورڈ یونیورسٹی ستمبر تک اس ویکسین کے 10 لاکھ ڈوز تیار کرنے کے لیے پرعزم ہے۔اتنی کم مدت میں ویکسین کی تیاری بظاہر ناممکن لگتی ہے مگر آکسفورڈ یونیورسٹی کی ٹیم درحقیقت کورونا وائرس جیسی وبا کے لیے پہلے سے تیاری کررہی تھی۔اس مقصد کے لیے انہوں نے پہلے سے جینیاتی تدوین شدہ چیمپئنزی وائرس کو تیار کیا ہوا تھا جو اس نئے وائرس کی بنیاد ہے۔
انہیں توقع ہے کہ وہ ایسا محفوظ وائرس اس ویکسین کا حصہ بناسکیں گے جو کووڈ 19 کے خلاف مدافعتی نظام کو لڑنے کی تربیت دے سکے گا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویکسین ان چند ٹرائلز میں سے ایک ہے جو انسانی آزمائش کے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔چین میں 3 مختلف ویکسینز کی انسانوں پر آزمائش ہورہی ہے جن میں سے ایک ویکسین تو دوسرے مرحلے میں بھی داخل ہوچکی ہے۔اسی طرح امریکا میں مارچ میں موڈرینا کمپنی نے سب سے پہلے ایک ویکسین کی انسانوں پر آزمائش شروع کی تھی جبکہ ایک اور کمپنی انوویو کی ویکسین کا ٹرائل رواں ماہ کے شروع میں شروع ہوا۔تاہم ان ویکسینز کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ان کی تیاری اور عام استعمال کی اجازت میں ایک سے ڈیڑھ سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔اس کے مقابلے میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی تحقیقی ٹیم نے گزشتہ ہفتے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی ویکسین ستمبر تک تیار ہوجائے گی۔آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویکسینولوجی کی پروفیسر سارہ گلبرٹ نے دی ٹائمز آف لندن کو بتایا کہ وہ ’80 فیصد پراعتماد’ ہیں کہ ان کی ٹیم کی تیار کردہ ویکسین کام کرے گی اور ستمبر تک تیار ہوجائے گی۔انہوں نے کہا ‘کوئی یہ وعدہ نہیں کرسکتا کہ یہ ویکسین کام کرے گی، مگر مجھے 80 فیصد اعتماد ہے کہ ہمیں کامیابی ملے گی’۔اگر برطانوی سائنسدان ستمبر تک اس ویکسین کو تیار کرکے استعمال کرنے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں پھر بھی ماہرین کے مطابق اس ویکسین کے لاکھوں ڈوز تیار کرنے کے لیے کئی ماہ کا عرصہ درکار ہوگا۔پروفیسر سارہ کا کہنا تھا کہ برطانوی حکومت سے سرمائے کے لیے بات چیت ہورہی ہے اور حتمی نتائج سے پہلے ہی پروڈکشن بھی شروع کردی جائے گی، جس سے لوگوں کو ویکسین تک رسائی فوری مل سکے گی۔انہوں نے کہا کہ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو خزاں تک کامیابی ممکن ہے۔نوول کورونا وائرس کی وبا ممکنہ طور پر گزشتہ سال ستمبر کی وسط میں پھیلنا شروع ہوئی تھی اور چین کا شہر ووہان سے اس کا آغاز نہیں ہوا۔
یہ دعویٰ برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آیا جس میں نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی ابتدا کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی۔
کیمبرج یونیورسٹی کی اس تحقیق کے دوران کووڈ 19 کی وبا کی بنیاد ڈھونڈنے پر کام ہورہا ہے اور تحقیقی ٹیم کو توقع ہے کہ وہ اس پہلے فرد کو شناخت کرنے میں کامیاب ہوجائے گی جو اس وائرس کا پہلا شکار بنا، جس کے بعد یہ آگے پھیلنا شروع ہوا۔
تحریر جاری ہے
وائرس کے پھیلنے کے نیٹ ورک کا تجزیہ کرنے کے دوران وہ اب تک اس کے لیے پھیلائو کا چارٹ بشمول جینیاتی تبدیلیاں جاننے میں کامیاب ہوچکے ہیں یعنی کیسے یہ وائرس چین سے آسٹریلیا، یورپ اور باقی دنیا تک پھیلا۔
اس تحقیق کے کچھ نتائج گزشتہ ہفتے جاری ہوئے تھے اور اب مزید تفصیلات کو جاری کیا گیا ہے۔
اس تحقیق کے دوران اس تحقیق میں کورونا وائرس کے 1 ہزار سے زائد مکمل جینومز کو دیکھا گیا جن کا سیکوئنس انسانی مریضوں سے تیار کیا گیا تھا۔
بعد ازاں جینیاتی تبدیلیوں کی بنیاد پر وائرس کو ٹائپ اے، بی اور سی میں تقسیم کیا گیا اور ٹائپ اے ٹائپ اے وائرس ممکنہ طور پر چمگادڑوں سے براستہ پینگولین انسانوں میں چھلانگ لگا کر پہنچا تھا۔
ٹائپ اے کو چینی اور امریکی شہریوں میں دریافت کیا گیا جس کا تبدیلیوں والا ورژن آسٹریلیاں اور امریکا تک پہنچا۔
تحقیق کے مطابق ووہان میں زیادہ تر کیسز میں ٹائپ اے وائرس نظر نہیں آیا بلکہ ٹائپ بی وائرس متحرک تھا جس سے عندیہ ملتا ہے کہ وہاں کسی ایونٹ سے یہ بدلنا شروع ہوا۔
ٹائپ سی ورژن ٹائپ بی کے بطن سے نکلا جو یورپ کے ابتدائی کیسز میں نظر آیا جبکہ جنوبی کوریا، سنگاپور اور ہانگ کانگ میں بھی اس کے مریض تھے مگر چین میں اس کے آثار نہیں ملے۔
محققین کے مطابق جمع شدہ ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا 13 ستمبر سے 7 دسمبر کے دوران پھیلنا شروع ہوئی اور اس کی بنیاد وائرس میں تبدیلیوں کی شرح کی رفتار ہے۔
تاہم سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ وقت کا تخمینہ غلط بھی ہوسکتا ہے مگر فی الحال یہی تخمینہ درست لگتا ہے، اس حوالے سے مزید مریضوں کے نمونوں کا تجزیہ کیا جائے گا۔
تحقیقی ٹیم کے قائد پیٹر فورسٹر کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر اس وبا کے آغاز ووہان سے نہیں ہوا کیونکہ وہاں تمام مریضوں میں ٹائپ بی وائرس دریافت ہوا، البتہ ووہان سے 500 میل دور واقع صوبے گوانگ ڈونگ میں 11 میں سے 7 جینومز میں ٹائپ اے کو دیکھا گیا، یہ تعداد بہت کم ہے کیونکہ وبا کے ابتدائی مرحلے کے جینومز کی تعداد بہت کم تھی۔
وائرس کی اصل بنیاد کی شناخت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ آئندہ ایسا ہونے سے بچا جاسکے اور اس سے یہ معلوم ہوگا کہ وہ کونسے عوامل ہیں جس کی وجہ سے کووڈ 19 پھیلا۔
سائنسدانوں نے پہلی بار اس وائرس کی بنیاد جاننے کے لیے قدم زمانے کے انسانوں کی ہجرت کے لیے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے وائرس کے پھیلائو کو ٹریک کیا۔
اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع ہوئے۔
خیال رہے کہ مارچ میں ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس وائرس کا پہلا کیس 17 نومبر کو سامنے آیا تھا۔
یہ بات ساﺅتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے چینی حکومت کے کورونا وائرسز کے کیسز کے تجزیے کے حوالے سے بتائی۔
چینی حکومتی ڈیٹا کے مطابق 17 نومبر کو یہ ممکنہ پہلا مریض سامنے آیا تھا۔
اس کے بعد روزانہ ایک سے 5 نئے کیسز رپورٹ ہوئے اور 15 دسمبر تک کووڈ 19 کے مریضوں کی تعداد 27 تک پہنچ گئی تھی جبکہ 17 دسمبر کو پہلی بار 10 کیسز رپورٹ ہوئے اور 20 دسبمر کو مصدقہ کیسز کی تعداد 60 تک پہنچ گئی تھی۔
27 دسمبر کو ہوبے پرویژنل ہاسپٹل آف انٹیگرٹیڈ کے ڈاکٹر زینگ جی شیان نے چینی طبی حکام کو اس نئے کورونا وائرس سے ہونے والے مرض کے بارے میں بتایا تھا، جب تک مریضوں کی تعداد 180 سے زائد ہوچکی تھی، مگر اس وقت بھی ڈاکٹروں کو اس کے حوالے سے زیادہ شعور نہیں تھا۔
2019 کے آخری دن یعنی 31 دسمبر کو مصدقہ کیسز کی تعداد 266 تک پہنچی اور یکم جنوری کو 381 تک چلی گئی۔
رپورٹ کے مطابق چینی حکومت کا یہ ریکارڈ عوام کے لیے جاری نہیں کیا گیا، مگر اس سے ابتدائی دنوں میں مرض کے پھیلاﺅ کی رفتار کے بارے میں اہم سراغ ملتے ہیں اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک چین میں کتنے کیسز رپورٹ ہوچکے تھے۔
سائنسدان اس پہلے مرض کی تلاش اس لیے بھی کرنا چاہتے ہیں تاکہ نئے کورونا وائرس کا باعث بننے والے ذریعے کا سراغ لگایا جاسکے، جس کے بارے میں ابھی سوچا جاتا ہے کہ یہ کسی جانور جیسے چمگادڑ سے ایک اور جانور میں گیا اور پھر انسانوں میں منتقل ہوگیا۔
حکومتی ڈیٹا کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے کیسز نومبر سے بھی پہلے رپورٹ ہوئے ہوں جن کی تلاش کا کام ہورہا ہے۔اس تحقیق کے نتائج اس وقت سامنے آئے جب چند دن قبل ہی یہ خبر سامنے آئی تھی کہ امریکی حکومت کو شک ہے کہ کورونا وائرس کو ممکنہ طور پر چین کے شہر ووہان کی ایک لیبارٹری میں تیار کیا گیا۔فاکس نیوز، سی این این اور یاہو نیوز نے اپنی رپورٹس میں بتایا تھا کہ امریکی حکومت نے شکوک بڑھنے کے بعد خفیہ اداروں کو معاملے کی تفتیش کا حکم دے دیا۔رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کچھ دن قبل ایک پریس کانفرنس کے دوران اس بات کا عندیہ دیا تھا کہ امریکی حکومت اس بات پر نظر رکھے ہوئے ہے کہ کہیں کورونا کسی لیبارٹری میں تو تیار نہیں ہوا۔ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کے محض ایک روز بعد سی این این نے اپنی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ امریکی حکومت نے خفیہ اداروں کے ماہرین کی مدد سے اس معاملے کی تفتیش شروع کردی ہے کہ کہیں کورونا وائرس چین کی لیبارٹری میں تو تیار نہیں ہوا۔امریکی حکومت کی جانب سے تفتیش شروع کیے جانے کے بعد چینی حکومت نے بھی ایک بار پھر بیان دیا تھا کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) بھی کہہ چکا ہے کہ کورونا وائرس لیبارٹری میں نہیں بنا۔