عالمی وبا کرونا تو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی



عالمی وبا کرونا تو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی‘ یہ وباء دنیا بھر میں ایک نئے معاشی اور سماجی نظام کی بنیاد رکھ رہی ہے کورونا وائرس مستقبل کے عالمی نظام میں بڑی تبدیلیاں لانے والا ہے وہ نیا عالمی نظام کیسا ہوسکتا ہے اور کیا پاکستان اس نئے عالمی نظام کے لیے تیار ہے نئے عالمی نظام میں پاکستان کی قومی اور اندرونی سلامتی کے لیے کیا نئے فیصلے ہوسکتے ہیں یہ سوال اس وقت صرف حکومت ہی نہیں بلکہ پوری قومی سیاسی قیادت کے سامنے رکھا ہوا ہے امریکی فرم PEW کے حالیہ سروے کے نتائج کے مطابق 66 فیصد امریکی کرونا وائرس کی حالیہ وباء کے باعث چین کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کر چکے ہیں چین بھی عالمی حکمرانی پر قابض ہونے کے لیے اپنی صلاحیت اور طاقت کو ثابت کرنے کی خاطر وبا سے لڑنے کے لیے امریکی کمزوریوں کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے امریکا اور برطانیہ ترقی یافتہ ملک ہونے کے باوجودکورونا وائرس ٹیسٹنگ کے سلسلے کو وسعت دینے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں اور چین نے ووہان کے ہر ایک شہری کا ٹیسٹ کرنے کا پلان پیش کردیا ہے اور وائرس پر قابو پانے کی کوششوں کو عالمی پذیرائی کا منتظر ہے‘ یہ ایشو اس وقت امریکہ اور چین کے مابین ایک سرد جنگ کا باعث بنا ہوا ہے مغربی ممالک نے طبی سامان کی ترسیل بند کردی ہے اور چین چہرے کے ماسک اور وینٹی لیٹر کی پیداوار میں تیزی سے اضافہ کر چکا ہے اور انہیں پوری دنیا میں تقسیم کررہا ہے اب یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یہ ایک نئی سرد جنگ ہے؟ امریکا اور چین باہمی تجارت اور اقتصادی شعبوں میں اس قدر جڑے ہوئے ہیں کہ سرد جنگ مشکل دکھائی دے رہی ہے لیکن صدر ٹرمپ امریکی انتخابات کے لیے ضرور کوئی اینڈوینچر چاہتے ہیں برآمدات کے اعتبار سے چین امریکا کی تیسری بڑی مارکیٹ ہے اور سب سے زیادہ امریکی خزانے کی سیکیورٹیز بھی چین کے پاس ہیں دونوں ملکوں کے درمیان حال ہی میں تجارتی خسارے کو کم کرنے پر اتفاق ہوا ہے اور چین نے امریکا سے اضافی 200 ارب ڈالر کی مصنوعات خریدنے کا وعدہ کیا ہے امریکا اب طبّی سامان خریدنے کے لیے چین سے بات چیت کا متمنی ہے امریکا میں عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے مطلوبہ ماسک کی تعداد کے مقابلے میں صرف ایک فیصد ماسک دستیاب ہیں اور مطلوبہ وینٹی لیٹروں کے مقابلے میں صرف 10 فیصد وینٹی لیٹر دستیاب ہیں چین کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں برآمدات کا حصہ 20 فیصد ہے اور وہ نئی ملنے والی مارکیٹ گنوانا نہیں چاہتا یہ صورت حال باالکل واضح ہے کہ مستقبل میں امریکا اور چین ہی عالمی فریم ورک بنائیں گے‘ اب یہاں پاکستان نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ نئے عالمی فریم ورک میں کہاں کھڑا ہوگا‘ ملک کی قومی سلامتی کے پیرا میٹرز طے کرنے والے پالیسی ساز کسی بھی جانب جھکاؤ کی بجائے مسلم دنیا اور امریکہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو توازن میں رکھنے کے ہامی رہے ہیں نئے عالمی نظام میں عالمی ادارہ صحت ایک اب ایک اہم فریق اور اسٹیک ہولڈر بن کر سامنے آچکا ہے اور کوئی بھی ملک اسے نظر انداز نہیں کرسکتا‘ ایک نئی صف بندی یہ بھی ہورہی ہے کہ متعدد ممالک امریکہ اور چین دنوں سے متعلق تحفطات کا اظہار کر رہے ہیں یہ ممالک امریکا اور چین دونوں کے طرزِ عمل میں خود کو تنہا پا رہے ہیں ہوسکتا ہے کہ یہ باہمی اتحاد قائم کرلیں آسٹریلیا اور جاپان مشترکہ طور پر ٹی پی پی-11 تجارتی اتحاد کا قیام عمل میں لائے ہیں یہ بات خارج از امکان نہیں ہے کہ آئندہ دہائیوں کے دوران امریکا اور چین کے اثر و رسوخ سے آزاد بین المملکتی اتحاد قائم ہوسکتے ہیں اس اتحاد میں شامل ممالک موسمیاتی تبدیلی، منظم علاقائی باہمی تجارت کے لیے ٹیکس چھوٹ کے فیصلے کر سکتے ہیں‘ یہ تمام تر صورت حال پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے کسی بڑے امتحان سے کم نہیں ہے جنوب ایشاء میں بھارت‘ افغانستان اور ایران اہم ملک ہیں پاکستان کی خارجہ پالیسی میں انہیں کسی قیمت پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا‘ بھارت پر پوری نظر رکھنے کی ضرورت اب ماصی سے کہیں بڑھ گئی ہے اب اسلام آباد کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ ابھرتے نئے عالمی نظام کے لیے خود کو تیار کرے

اپنا تبصرہ لکھیں