“
(تحریر:حافظ شفیق کاشف )
پاکستان کے اپنے قیام سے سعودی عرب کے ساتھ بڑے مثالی و مضبو ط تعلقات استوار رہے ہیں جنہیں اسلامی دنیا میں قدر کی نگا ہ سے دیکھا جاتا تھا۔پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلی سے ان تعلقات پرکبھی فرق نہیں آیا۔ ہماری سیاسی وجمہوری یا پھر غیر جمہوری حکومتوں کے آنے جانے سے قطع نظر پاکستان کو سعودی عرب کا مکمل تعاون میسر رہا۔ ان میں ریاست اور پاکستان کے عوام کو ترجیح حاصل رہی۔کلیدی قومی مفاد تنازعہ جموں وکشمیر پر سعودی عرب کھل کر پاکستان کے موقف کی حمایت کرتا رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر حرمین شریفین میں دعائیں ہوتی رہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کے پاکستان کے مطالبے کی تائید بھی کی جاتی رہی۔تاریخ بتاتی ہے کہ پاک سعودی تعلقات کئی ادوارپرمحیط ہیں۔
1980کی دہائی میں ایف سولہ طیاروں کی پہلی کھیپ کی خریداری سے 2سال قبل غیرملکی قرض ادائیگی میں توازن کے لیے 6ارب ڈالر کے قرض کی فراہمی تک سعودی عرب نے پاکستان کا ہمیشہ بھر پور ساتھ دیا ۔ایسے تین واقعات کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ یہ واقعات پاک سعودی تعلقات ،مسئلہ کشمیر اور پاکستان کے موجودہ وزیر خارجہ کے سعودی عرب کے خلاف جارحانہ بیان کے تناظر کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں ۔
1998میں پاکستان نے بھارتی جارحیت کے جواب میں جب جوہری دھماکے کئے۔ سعودی عرب نے اس کا خیر مقدم کیا۔ اس وقت کے ولی عہد مرحوم سلطان بن عبدالعزیز آل سعود نے پاکستان کا دورہ کیا اور کئی سال پاکستان کو نہ صرف مفت تیل کی فراہمی کا اعلان کیا بلکہ اقتصادی پابندیوں کی صورت میں امداد کی فراہمی کی بھی یقین دہانی کروائی ۔
جوہری دھماکوں کے بعد پہلی بار وزیر اعظم نواز شریف سعودی عرب کے دورے پر گئے تو ان کو روایت سے ہٹ کر عوامی سطح پر پروگرام کرنے کی اجازت اور خصوصی اعزاز سے نوازاگیا ۔اس دور میں پاک سعودی دوطرفہ تعلقات عروج پر تھے۔پھر جمہوریت کا قتل ہوا۔ مشرف آمریت نے مسئلہ کشمیر پر کمزوری دکھاتے ہوئے کشمیر سرحد پر باڑ لگا دی۔
غالبا یہ 2003کی بات ہے جب نواز شریف جدہ میں جلاوطنی کے دن گزار رہے تھے۔ ایک دن ایک اہم شخصیت نے ان سے ملاقات کی اور کہا کہ مشرف آمر نے مسئلہ کشمیر پر یوٹرن لے لیا ہے اور ہمارے نوجوانوں کو کشمیر سرحد پر شہید کیا جارہا ہے۔ پھر مشرف قومی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پرببانگ دہل یہ کہتے رہے کہ ہم نے جہاد شروع کیا تھا لیکن اب ہماری سرزمین دوسرے ممالک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ یوں انہوں نے پاکستان کا آزادی کشمیر کا موقف اتنا کمزور کر دیا کہ چین کے سوا پاکستان کے تمام دوست مسئلہ کشمیر پر اپنا واضح موقف دینے سے انکار کرتے نظر آئے۔
یہی وجہ تھی کہ سعودی عرب نے سرکاری سطح پر مسئلہ کشمیر پر اپنے موقف پر نظر ثانی کی ۔اس کی وجہ © ©”مدعی سست گواہ چست “والی بات تھی۔ 2008میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو پاک سعودیہ تعلقات ٹھیک تھے ۔ اس وقت صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے سعودی عرب کے دورے کئے تاہم نواز شریف 2013میں واپس اقتدار میں آئے تو پاک سعودی تعلقات ایک بار پھر عروج پر پہنچے۔ موجود ہ پی ٹی آئی حکومت کو جس طرح 6ارب ڈالر کی امداد ملی ہے، بالکل ایسے ہی سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کے بیرونی قرض کی ادائیگی ،ڈالر کونکیل ڈالنے اور بد تر اقتصادی صورت حال کوسہار ادینے کے لیے مسلم لیگ (ن)بھی سعودی عرب کی طرف دیکھ رہی تھی۔