(تحریر: حافظ شفیق کاشف)
عودی عرب اور پاکستان میں ہر سطح پر باہمی اعتماد، خیرسگالی، محبت اور غیر معمولی برادرانہ تعلقات
استوار رہے ہیں۔ امت مسلمہ کے مفادات کی نگہبانی اوراتحاد ان مضبوط برادرانہ تعلقات کی اہم بنیاد رہی ہے۔ حجاز مقدس کی خصوصی کشش دونوں برادر ممالک کے عوام کو شیر وشکر کرنے میں ایک روحانی وجہ ہے۔ عوام کے اتحاد اور محبت سے پھوٹنے والے اس رشتے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کی قیادت کی سطح پر پختہ مفاہمت اور مشترکہ مفادات کے لئے باہمی حمایت موجود ہے۔سعودی عرب ہمیشہ سے پاکستان کا بڑا حامی وپشتیبان رہا ہے۔ تاریخ کے مختلف نازک مراحل پر سعودی عرب نے بڑے بھائی کی طرح پاکستان کو کثیر معاشی تعاون اور ترقیاتی امداد فراہم کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ موجودہ وزیر اعظم عمران خان اقتدار میں آئے تو بھی یہ سعودی عرب ہی تھا جس نے مدد کی پکار پر فورا لبیک کہا۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ ”پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی ایسی مشکل صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جہاں خسارے کی شرح مالی سال 2017 – 2018 کے لئے جی ڈی پی کے 6.6 % تک پہنچ گئی تھی۔“سعودی عرب نے پاکستان کو درپیش سنگین اورفوری مالی امداد کا فوری ادراک واحساس کیا اور فوری طور پر 6 ارب ڈالرمالیت کے پیکیج کا اعلان کیاگیا۔ اس رقم میں سے نصف غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کو بڑھانے کے لئے تھی تاکہ پاکستان کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کیاجائے۔ معاشی تجزیہ نگاروں کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ (آئی۔ایم۔ایف) کی بھی شرط تھی کہ زرمبادلہ کے ذخائر کو اس سطح پر لایاجائے جہاں پاکستان پر واجب الادا قرض ادائیگیوں کے توازن کو محفوظ بنایاجائے تاکہ مزید معاشی تعاون کی راہ ہموار ہوسکے اور ڈیفالٹ کا خطرہ ٹالا جاسکے۔ فروری 2019 میں سعودی ولی شہزادہ محمد سلمان کے دورہ اسلام آباد کے موقع پرسعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں مختلف شعبہ جات میں 20 ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیاگیا۔ یہ واضح اور معلوم حقیقت ہے کہ جب کوئی ملک آپ کو مالی تعاون فراہم کرتا ہے، یا غیرملکی ذخائر کے توازن کے لئے نقد رقوم دیتا ہے تو مروجہ طریقہ کار کے تحت یہ اقدام عمل میں آتا ہے۔ ایک خاص مدت تک یہ پیشکش متعین ہوتی ہے۔ قرض اور ترقیاتی امداد کی مد میں جمع رقوم متعلقہ شرائط کے مطابق واپس کی جاتی ہیں۔ حال ہی میں سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات پر میڈیا میں طوفان اٹھایاجارہا ہے۔ ”دلچسپ مضامین“ اور ”بیانات کا جائزہ“ پیش کیاجارہا ہے۔ بعض نے موقع غنیمت جانا اور ’الزامات کی گرد آلودآندھیاں“ چلا کر دو برادر ممالک کے مضبوط تاریخی اور برادرانہ تعلقات کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ یہ ظاہر کرنے کی ”حماقت“ کی گئی کہ ہندوستان کے ساتھ تنازعہ جموں و کشمیرکے معاملے پر سعودی عرب پاکستان کی حمایت نہیں کرتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ تجزیے، تبصرے اور بازی لیجانے کی ”ابلاغی ہوس“ نے ”لکھاریوں“ کو یہ بھی ”عقل“ نہ دی کہ قلمی گولہ باری کا نشانہ آپ کا قومی مفاد ہے۔ دوسری جانب سعودی بھائیوں کے نزدیک بھی یہ تاثر حقیقت پر مبنی نہیں۔ اس قسم کے نظریات اور خیالات غلط اور بے بنیاد ہیں۔ گزشتہ دو برس کے دوران بالخصوص تنازعہ جموں وکشمیر کے حوالے سے سعودی عرب کی جانب سے پاکستانی موقف کی حمایت کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ سچائی کیا ہے؟ اور افسانہ طرازی کتنی ہے؟2019 میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھنے اورجموں وکشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت کی افواج میں جھڑپوں کے آغاز کے ساتھ ہی خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز آل سعود نے اپنے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کو اسلام آباد بھجوا کر پاکستان کی حمایت اور یکجہتی کا اظہار کیا۔ اس حقیقت کا اعتراف خود پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات اور موجودہ حکومت کے ترجمان فواد چوہدری نے 4 مارچ 2019 کواپنے بیان کے ذریعے کیاکہ ”سعودی عرب نے پاکستان اور بھارت کے مابین فوجی کشیدگی کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔“ فواد چوہدری نے ٹیلیویژن پر نشر ہونے والے بیانات میں فرمایا کہ ”سعودی عرب نے دیگر ممالک، جیسا کہ متحدہ عرب امارات اور امریکہ کو متحرک کیا کہ بھارت کو پاکستان کے ساتھ تناؤ بڑھانے سے روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔“5 اگست 2019 کو بھارت نے غیرقانونی طورپر اپنے زیرقبضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے یک طرفہ اور غیرقانونی اقدامات کئے۔ بھارت نے اپنے آئین کی شق 370 اور 35 اے ختم کی تو اس پر ایک نیا طوفان برپاہوا۔ اس صورتحال پر وزیراعظم عمران خان نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو فون کیا۔ سعودی عرب کی سرکاری پریس ایجنسی کی اطلاع کے مطابق ”اس رابطے میں خطے میں ہونے والی پیشرفت اور کوششوں پر تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ وزیراعظم عمران خان نے خطے میں کشمیر کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں آگاہ کیا۔“سعودی عرب کی وزارت خارجہ نیتنازعہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی فیصلے پر بیان جاری کیا جس میں خطے کی صورتحال میں ہونے والی اس پیشرفت پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خطے کے عوام کے مفادات کو مدنظر رکھنے پر زور دیاگیا۔بھارت اور پاکستان کے درمیان تناؤ کی ایک نئی لہر ابھرنے کے بعد اسی سال ستمبر میں سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ عادل الجبیر اور متحدہ عرب امارات (یو۔اے۔ای) کے وزیر خارجہ اسلام آباد آئے تاکہ ہندوستان اور پاکستان کے مابین تنازعہ پر قابو پایاجاسکے۔ ایک روزہ دورے کے دوران دونوں وزرا خارجہ نے وزیر اعظم عمران خان، وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی اور بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے علاوہ دیگر اہم حکومتی عہدیداران سے ملاقات کی۔ اس سے قبل وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی اپنے ’آفیشل اکاؤنٹ‘ پر ٹویٹ کرچکے تھے کہ ”الجبیر اور عبداللہ بن زاید اسلام آباد پہنچ رہے ہیں تاکہ کشمیر کی خطرناک صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جاسکے“۔ وزیراعظم پاکستان کے آفس نے ایک بیان میں کہا کہ ”دونوں وزرا خارجہ نے ملاقات کے دوران پاکستان کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کی اہمیت پر زور دیا“ اور یہ کہ ”ان کا یہ دورہ دونوں ممالک کی قیادتوں کی رہنمائی میں ہوا ہے اور دونوں وزراء خارجہ نے خطے میں امن و استحکام کو فروغ دینے اور برقرار رکھنے میں پاکستان کے کردار اور کوششوں پر بھی توجہ مبذول کروائی۔ انہوں نے موجودہ چیلینجز کا مقابلہ کرنے، تناؤ کم کرنے، اور ایسے ماحول کو فروغ دینے کے عزم میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حمایت کا اعادہ کیا جس سے امن و سلامتی کو یقینی بنایاجاسکے۔“ ملاقات کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے عالمی برادری پر زور دیا کہ ”وہ تنازعہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے غیر قانونی اور جارحانہ اقدامات روکنے اور انہیں تبدیل کرانے کے لئے بھارت پر دباؤ ڈالے۔“یہ خبر بھی میڈیا کے بعض حصوں میں نمایاں ہوئی کہ ”سعودی عرب نے تنازعہ جموں و کشمیر کے معاملے پر اضافی اقدامات اٹھائے ہیں اور رواں سال کے آغاز میں سعودی عرب نے تنازعہ جموں وکشمیر پر بات کرنے کے لئے شوری کونسل کے اسپیکر کے ذریعے اسلامی ممالک کی پارلیمان (Parliaments) کے سربراہان کی کانفرنس منعقد کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ مسلم اقوام کی نمائندہ پارلیمان کے ذریعے اس مسئلہ پر پیش رفت کے پس پردہ خاصی سوچ بچار کارفرما تھی۔ اس سے عوامی اور سرکاری سطح پر قبولیت عام ملتی، یہ مسئلہ پوری شدت سے دنیا میں اجاگر ہوتا جس کے نتیجے میں بالخصوص اسلامی ممالک کی سطح پر نئے امکانات اور اقدامات کی راہیں ہموار ہوتیں۔ لیکن پاکستان کی جانب سے یہ تجویز مسترد کردی گئی جس پر سعودی عرب انگشت بدنداں رہ گیا۔ رو اں سال اگست میں وزیراعظم عمران خان نے الجزیرہ ٹی وی چینل کو انٹرویو میں پاکستان کی مدد کرنے میں سعودی عرب کے کردار کو تسلیم کیا اور کہا کہ ”سعودی عرب نے نہ صرف یہ کہ انتہائی مشکل معاشی بحران میں ہماری مدد کی بلکہ ماضی میں بھی جب کبھی پاکستان کو مشکل صورتحال کا سامنا ہوا، سعودی عرب ہماری مدد کرتا رہا ہے“(جاری ہے)