جب سے بھارت معرض وجود میں آیا ہے اس وقت سے لیکر آج تک اسکے تعلقات اپنے ہمسایہ ممالک سے کشیدہ ہی رہے ہیں۔ اپنے سیاسی گرو چانکیہ کو تیلیہ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے بھارت نے اپنے پڑوسیوں کی بجائے ان کے دشمنوں سے دوستی نبھائی۔ اپنے قریبی ہمسائیوں چین اور پاکستان سے دشمنی پالنے کے لئے اس نے مغربی ممالک سے مختلف قسم کے اتحاد کئے۔ پاکستان سے اپنی کینہ پرروی نبھانے کیلئے اس نے کشمیر اور پانی جیسے مسائل پیدا کئے ۔ 15اگست 2019ء کو بھارت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370اور 35-Aکو منسوخ کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا اور کشمیر میں غیر کشمیریوں کو آباد کر کے وہاں کی مسلمان آبادی کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش کی۔اس مذموم حرکت کو کامیاب بنانے کیلئے اس نے کشمیر کی وادی میں بدترین کرفیو اور لاک ڈاؤن کا سہارا لے رکھا ہے جسکی وجہ سے کشمیر ایک جیل کی صورت ا ختیار کر گیا ہے۔ وادی میں آمد ورفت اور انٹرنیٹ کی سہولیات بند ہیں اور لوگوں کو اپنے گھروں سے نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔ جولائی 2020ٗء میں بھارت نے لداخ کے علاقے میں سڑک بنانے کی یک طرفہ کاروائی کر کے چین سے اپنی دشمنی نبھائی اور ذلت ورسوائی کے ساتھ ساتھ شرمندگی کا سامنا بھی کیا ۔ جنوب ایشیاء میں بھارت کی افغانستان کے علاوہ وہ تمام ممالک سے سرحدیںملتی ہیں ۔ بھارت اس خطے کا چین کے بعد سب سے بڑا ملک ہے لیکن ہمسائیوں کے ساتھ بھارت کے تعلقات قابل فخر نہیں ہیں۔ بھارت کے نیپال کے ساتھ تاریخی روابط تھے۔بھارت نے چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں نیپال کو ایک بفر زون کی طرح استعمال کیا لیکن دونوں ممالک کے تعلقات اس وقت شدیدتناؤ کا شکار ہیںجسکی وجہ یہ ہے کہ بھارت نے اکتوبر 2019ء کو اپنا نیا سیاسی نقشہ جاری کیا ہے جسمیں نیپال کے کچھ علاقوں کو غیر قانونی طور پر اپنے علاقے ظاہر کیا ہے۔ مجبوراََ نیپال کو بھی مئی 2020ء میں اپنا نیا سیاسی نقشہ جاری کرنا پڑا جسمیں لیپو لیکھ ، کالا پانی اور لیمپیا دھورا کو اپنے علاقے دکھانا پڑے کیونکہ یہ علاقے ہر اعتبار سے نیپال کے ہی علاقے ہیں۔ اسکے علاوہ بھارت نے نیپال سے متصادم علاقے میں ایک نئی سڑک کا افتتاح کیا جو کیلاش کی وادی کو تبت میں چین سے ملاتی ہے۔ نیپال نے بھارت کی اس حرکت پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے 2014ء کے دستخط شدہ معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے جس کے تحت کالا پانی اور لیپو لیکھ کے علاقوں کا مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا کہا گیا تھا ۔ بھارت کے بنگلہ دیش اور سری لنکا سے بھی گہرے مراسم ہیںجو باہمی چپقلشوں اور ریشہ دوانیوں سے بھرے پڑے ہیں۔2015ء میں نریندر مودی نے سری لنکا کا دورہ کیا جو گزشتہ 26سال میں کسی بھارتی وزیر اعظم کا پہلا دورہ تھا۔ اس دورے کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان چار معاہدے ہوئے لیکن یہ دورہ محض دکھا وے کا ایک دورہ تھا جسکا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور نہ ہی کسی معاہدے پر عمل درآمد ہوا۔ اس کے علاوہ جنوب ایشیاء میں ہندو تامل اور سری لنکا کے بدھ مت سے تعلق رکھنے والے سنہالیوںکے درمیان تعلقات تاریخی طور پر کشیدہ رہتے ہیں۔ تامل ناڈو میںبھارت اپنے مہاجر کیمپوں میں 4لاکھ سے زیادہ تامل مہاجرین کو پناہ دئیے ہوئے ہے۔ جولائی 2020ء میں کولمبو پورٹ پر مشترکہ کام کرنے کیلئے بھارت، جاپان اور سری لنکا کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا لیکن بھارت اور سری لنکا کے خراب تعلقات کی وجہ سے سری لنکا کے وزیر اعظم مہندراراجا پکسا نے اس معاہدے پر عمل در آمد کرنے سے انکار کر دیا ہے۔بھارت کے خیال میں سری لنکا نے اس معاہدے پر چین کی وجہ سے عمل نہیں کیا کیونکہ چین کا اس علاقے میں اثر ورسوخ بڑھ رہا ہے۔ سری لنکا نے ہمبن ٹوٹا کی بندرگاہ بھی چین کو 99سال کی لیز پر دے رکھی ہے۔ تامل علاقے میں بھارت کی ناجائز مداخلت کی وجہ سے بھی سری لنکا کا جھکاؤ چین کی طرف بڑھ رہا ہے۔بنگلہ دیش کے ساتھ بھی بھارت کے تعلقات خراب سے خراب تر کی طرف جارہے ہیں۔ ان دونوں ممالک کے تعلقات اس وقت شروع ہوئے جب 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد مشرقی پاکستان کے مہاجرین کو بھارت نے پناہ دی۔ دونوں ملکوں کے درمیان دنیا کی پانچویں لمبی ترین سرحد واقع ہے لیکن تیستاکے دریا کے جھگڑے اور علاقے میں چین کی بڑھتی ہوئی گرفت کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو رہے ہیں۔ بنگلہ دیش چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ ہے۔ چین نے 2016ٗء میں بنگلہ دیش کے ساتھ 24بلین ڈالر کی خطیر رقم کے 27معاہدے کر رکھے ہیں۔ بھارت کے 2019ء کے سیٹزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ نے بھی بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات کو خراب کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی جولائی 2020ٗ ء میں بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد سے ٹیلی فونک گفتگو نے بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات مزید خراب کر دیئے ہیں۔ ایران سے بھی بھارت کے تعلقات کو ایک شدید جھٹکا ملا ہے جب ایران نے بھارت کو چا ہ بہار زاہدان ریل منصوبے سے الگ کرتے ہوئے چین سے 400بلین ڈالر کی سٹریٹجک پارٹنر شپ ڈیل کر لی ہے۔ دوسری طرف امریکہ افغانستان سے جانے والا ہے جس نے جاتے جاتے بھارت کو افغانستان میں کوئی کردار نہیں دیا۔ امریکہ کے طالبان سے مذاکرات میں بھی بھارت کا کوئی رول نہیں۔ بھارت نے افغانستان میں اربوں ڈالر خرچ کر رکھے ہیں لیکن اسکا اسے کوئی فائدہ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ مختصراََ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو تنہا کرتے کرتے بھارت خود نتہا ہو کر رہ گیا ہے۔ بھارت کے کچھ فیصلے جن میں این آر سی ، سی اے اے اور آئین کی شق 370اورA 35-کی منسوخی شامل ہے بھارت کی خارجہ پالیسی میں ناکامی کا باعث بن رہے ہیں۔ بھارت کے لئے وقت آگیا ہے کہ اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ بھارت اپنے کئے ہوئے غلط فیصلوں کو واپس لے لے تا کہ اسے مزید نقصان نہ اٹھانا پڑے۔
