طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہفتے (کل) سے قطر کے درالحکومت دوحہ میں ہو رہا ہے۔حکام نے امید کا اظہار کیا ہے کہ یہ مذاکرات افغانستان میں لڑی جانے والی 19 سالہ جنگ کے خاتمے اور ملک میں قیام امن کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوں گے۔امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھی واشنگٹن کے حمایت یافتہ ان مذاکرات میں شرکت کے لیے دوحہ پہنچ رہے ہیں کیونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نومبر میں ہونے والے انتخابات سے پہلے اپنے انتخابی وعدوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔انٹرا افغان مذاکرات کا آغاز مارچ میں ہونا تھا لیکن قیدیوں کے تبادلے کے تنازع سے اس عمل میں کئی بار تاخیر کا سامنا کرنا پڑا تاہم غنی حکومت کی جانب سے تقریباً تمام جنگجوؤں کی رہائی کے بعد یہ مذاکرات بالآخر کل سے شروع ہو رہے ہیں۔دوحہ میں افغان عہدیداروں نے اس بات کی تصدیق کی کہ مذاکرات ہفتے کے روز سے شروع ہوں گے۔قطر کی وزارت خارجہ نے بھی کہا کہ یہ مذاکراتی عمل ’افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کی طرف ایک سنجیدہ اور اہم قدم ہے۔‘افغانستان کے قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ آج (جمعے کو) قطر کے لیے روانہ ہوں گےواشنگٹن اور طالبان کے مابین فروری میں ہونے والے معاہدے کے بعد جولائی میں امریکی فوج کی تعداد 12 ہزار سے کم ہوکر 8600 ہوگئی تھی اور اکتوبر میں امید ہے کہ مزید فوجیوں کے انخلا کے بعد یہ تعداد گھٹ کر ساڑھے چار ہزار رہ جائے گی۔امن مذاکرات کے آغاز کا اعلان اس میں حائل آخری رکاوٹ کے خاتمے کے صرف چند گھنٹوں کے بعد کیا گیا۔ یہ رکاوٹ فرانسیسی اور آسٹریلین شہریوں اور فوجیوں کی ہلاکتوں میں ملوث چھ طالبان قیدیوں کی رہائی کا مسٔلہ تھا۔
پیرس اور کینبرا نے ان چھ شدت پسندوں کو آزاد کرنے پر اعتراض کیا تھا لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان طالبان کو قطر بھیج کر ایک سمجھوتہ کیا گیا ہے۔جمعرات کی شب طالبان نے تصدیق کی کہ یہ چھ قیدی دوحہ پہنچے ہیں۔ انہیں ایک خصوصی طیارے پر کابل سے باہر روانہ کیا گیا تھا۔ان چھ افراد میں ایک سابق افغان فوجی بھی شامل ہیں جن پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے 2012 میں پانچ فرانسیسی فوجیوں کو ہلاک اور 13 کو زخمی کیا تھا۔آسٹریلیا کے تین فوجیوں کو قتل کرنے والے ایک اور سابق افغان فوجی بھی ان چھ افراد میں شامل تھے۔طالبان عہدیدار نے بتایا کہ مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کی ایک ایجنسی میں کام کرنے والی فرانسیسی خاتون بیٹینا گوئزلارڈ کو قتل کرنے والے دو اور طالبان قیدیوں کو افغانستان کے صوبے وردک میں رہا کیا گیا ہے۔ابتدائی طور پر ان کی رہائی کی گوئزلارڈ کے اہل خانہ اور پیرس نے بھی مخالفت کیا تھی۔ افغان حکومت نے فوری طور پر طالبان کے اس دعوے کی تصدیق نہیں کی۔
