اسرار الحق مشوانی – بھارت نے پانچ اگست کے اقدام سے ڈیموگرافک تبدیلی کی کوشش کی یہ سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے اب عالمی برادری کا امتحان ہے کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈالے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کو روکا جا سکے یہ حقیقت ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور پاکستان بھارت کشیدگی پر سخت ترین عالمی دباؤ اور ردعمل کے باوجود مودی سرکار ٹس سے مس نہیں ہوئی اور اس نے گزشتہ 47 روز سے مقبوضہ کشمیر میں ننگ انسانیت مظالم کا سلسلہ برقرار رکھا ہوا ہے بی بی سی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق مقبوضہ وادی میں دکانیں، کاروبار، تعلیمی ادارے بدستور بند ہیں اور کرفیو کی سختیوں کے باعث وہاں تمام کاروبار حیات ٹھپ ہو چکا ہے۔ وحشت اور آسیب کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ گھروں میں قید کشمیری ضروریات زندگی کو ترس گئے ہیں پولیس نے بزرگ و لاغر کشمیری رہنما سید علی گیلانی کو پریس کانفرنس سے روک دیا ان کی جانب سے پریس کانفرنس کی ای میل تیزی سے وائرل ہوئی تھی وادی کی تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ مقبوضہ وادی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کشمیریوں کی زندگی بدتر ہونے لگی ہے۔ چپے چپے پر بھارتی فوج تعینات ہے اور گھروں میں محصور لوگ کھانے پینے کی اشیاء کو بھی ترس گئے ہیں۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق صرف شوپیاں کے علاقے سے دو ہزار کے قریب نوجوانوں کو حراست میں لیا گیا اور وادی میں حریت قائدین اور سیاسی رہنما بدستور بند ہیں۔ کرفیو اور لاک ڈاؤن کے باعث ادویات بھی معدوم ہو چکی ہیں قابض بھارتی حکومت نے اپنی پارٹی بی جے پی کے سابق رہنما یشونت سنہا، ریٹائر ائر مارشل کپل کاک اور سماجی کارکن سشوبھا بھادے کو بھی سری نگر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی 4 اگست سے اب تک مقبوضہ وادی میں ذرائع مواصلات مکمل بند ہیں اور پانچ اگست کو نافذ کئے گئے کرفیو کا تسلسل ایک لمحہ کو بھی ٹوٹنے نہیں دیا گیا ان مظالم اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا اقوام متحدہ ہیومن رائٹس کونسل، ایمنسٹی انٹرنیشنل، یورپی یونین، برطانوی پارلیمنٹ، امریکی ارکان کانگرس اور چین و امریکہ کی قیادتوں سمیت تمام علاقائی اور عالمی نمائندہ فورمز اور قائدین کی جانب سے سخت نوٹس لیتے ہوئے بھارت کی مودی سرکار کو مقبوضہ وادی میں جاری مظالم سے رجوع کرنے کا کہا گیا ہے اور خود بھارتی سپریم کورٹ نے بھی گزشتہ دنوں مودی سرکار کو مقبوضہ کشمیر کے حالات معمول پر لانے کے احکام صادر کرتے ہوئے عندیہ دیا ہے کہ ضرورت پڑی تو فاضل چیف جسٹس خود مقبوضہ وادی کا دورہ کریں گے حال ہی میں ترک صحافیوں کے ایک وفد نے کنٹرول لائین کا دورہ کیا جہاں وفد کے ارکان کو بھارت کی جانب سے سیزفائر کی خلاف ورزیوں اور شہری آبادیوں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے آگاہ کیا گیا۔ ترک صحافیوں نے اس موقع پر بھارتی فائرنگ کا نشانہ بننے والے شہریوں سے بھی ملاقاتیں کیں اور موجودہ صورتحال پر ان کے تاثرات معلوم کئے۔ یقیناً کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب پانچ اگست سے اب تک کسی نہ کسی علاقائی اور عالمی فور م اور قائد کی جانب سے مودی سرکار کو مقبوضہ کشمیر میں مظالم بند کرنے اور مسئلہ کشمیر کا یو این قراردادوں کے مطابق حل نکالنے کا نہ کہا گیا ہوترجمان چینی وزارت خارجہ نے ایشیائی اور افریقی ممالک کے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے باور کرایا کہ چین نے کشمیر کو ہمیشہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک مسئلہ کے طور پر لیا ہے۔ ان کے بقول مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہئے اور دونوں ممالک کو یہ مسئلہ باہمی ڈائیلاگ کے ذریعے حل کرنا چاہئے پاکستان نے تو مذاکرات سے کبھی انکار نہیں کیا کشمیر اور پانی دوطرفہ تنازعہ ہے پاکستان مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر اسے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کا قابلِ عمل اور تمام فریقین کے لیے قابلِ قبول حل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی قراردادوں کے ذریعے پیش کر دیا ہے جن کے تحت کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کرتے ہوئے بھارت کو مقبوضہ وادی میں رائے شماری کے اہتمام کی ہدایت کی گئی تھی مگر بھارت نے اقوام متحدہ کی ان قرار دادوں کو بھی کبھی درخور اعتناء نہیں سمجھا اور ان قراردادوں کو غیر موثر بنانے کے لیے پہلے اس نے اپنے آئین میں ترمیم کر کے دفعہ 370 کے تحت مقبوضہ وادی کو اپنی ریاست کا درجہ دے دیا اس کے ساتھ 1972 ء میں شملہ معاہدہ کر کے اسے کشمیر سمیت کسی بھی دوطرفہ تنازعہ کو کسی دوسرے علاقائی اور عالمی فورم پر لے جانے سے روک دیا جبکہ اس نے خود بھی کبھی شملہ معاہدہ کی پاسداری نہیں کی بھارت نے آئین کی دفعہ 370 اور 35 اے کو آئین سے نکال کر مقبوضہ وادی میں اپنا جبر و تسلط بڑھا دیا اور کشمیری عوام کو عملاً زندہ درگور کر دیا جس پر پاکستان اور بھارت کے مابین مزید کشیدگی پیدا ہونا بھی فطری امر تھا مودی سرکار کی جنونیت نے آج ایسی صورتحال بنا دی ہے کہ دونوں ایٹمی ممالک پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے مدمقابل آ چکے ہیں اور چنگاریاں برساتی بھارتی جنونیت کسی بھی وقت اس خطہ میں ایٹمی جنگ کی نوبت لا سکتی ہے اس صورتحال میں پاکستان کو لامحالہ اپنے تحفظ و دفاع کے تقاضے نبھانے ہیں جس کے لیے پاکستان کی سول اور عسکری قیادتیں مکمل یکجہت و یکسو ہیں اور بھارت کی کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں اسی ہفتے نیویارک میں شروع ہونے والے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس پر مرکوز ہیں جس میں مسئلہ کشمیر کے حل کے اقدامات اٹھانا ہی اصل ایجنڈا ہو گا۔ وزیراعظم عمران خاں اس اجلاس میں شرکت کے لیے روانہ ہو گئے مودی سرکار نے اسی حوالے سے وزیر اعظم عمران خاں کے دورہ امریکہ کو ناکام بنانے کے لیے مختلف سازشوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی ملبہ پاکستان پر ڈال دیا جائے وزیر اعظم مظفر آباد کے جلسہ میں چونکہ خود اعلان کر چکے ہیں کہ کنٹرول لائین عبور کرنے کی ضرورت پڑی تو اس کی وہ خود کال دیں گے۔ فی الوقت انہیں یو این جنرل اسمبلی میں کشمیر کیس کی وکالت کرنے دی جائے۔ یہ وزیر اعظم کی مناسب سوچ ہے اس لیے یو این جنرل اسمبلی سے ان کے خطاب تک انفرادی یا اجتماعی طور پر ہماری جانب سے ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایا جانا چاہئے جسے جنرل اسمبلی میں بھارت اپنے حق میں کیش کرا سکے
