کیا دنیا کا سب سے طویل ترین دریا اپنے اعزاز سے محروم ہونے والا ہے؟

موجودہ عہد کی سائنسی پیشرفت کو دیکھ کر خیال کیا جا سکتا ہے کہ ہمیں اپنی دنیا کے بارے میں کافی کچھ معلوم ہوچکا ہوگا یا کم از کم پیمائش تو ہوچکی ہوگی۔

مگر اب تک اس سوال کا حتمی جواب معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ لمبائی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا دریا کونسا ہے۔

جی ہاں 2023 میں بھی سائنسدان اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ویسے اس وقت دریائے نیل کو لمبائی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا دریا مانا جاتا ہے اور گنیز ورلڈ ریکارڈز میں اسی کا نام درج ہے۔

مگر سائنسدانوں کی ایک ٹیم دریائے ایمازون کی پیمائش کا مشن شروع کر رہی ہے تاکہ اس بحث کا حتمی جواب دیا جا سکے کہ کونسا دریا سب سے بڑا ہے۔

تحقیقی ٹیم کے مطابق نیل ایک کیڑے کی طرح جبکہ ایمازون ایک اینا کونڈا کی طرح ہے، دونوں میں کوئی موازنہ نہیں۔

خیال رہے کہ دریائے ایمازون حجم کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا جبکہ لمبائی کے لحاظ سے دوسرا سب سے بڑا دریا ہے۔

7 ہزار کلومیٹر طویل مہم

اس مہم کا آغاز اپریل 2024 میں ہوگا اور یہ 5 ماہ تک جاری رہے گی جس کے دوران دریائے ایمازون کے ہر حصے میں سائنسدان سفر کرکے جدید ریور میپنگ سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ حجم کے ساتھ ساتھ یہ لمبائی کے لحاظ سے بھی دنیا کا سب سے بڑا دریا ہے۔

واضح رہے کہ ایمازون میں بہنے والا پانی ایک عظیم ریور سسٹم کا نتیجہ ہے جو شمالی جنوبی امریکا میں پھیلا ہوا ہے۔

ابھی یہ مانا جاتا ہے کہ یہ دریا 4 ہزار میل تک پھیلا ہوا ہے مگر اب بھی اس حوالے سے تنازع موجود ہے کہ اس دریا کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے۔

Encyclopedia Britannica اور دیگر ذرائع کے مطابق یہ دریا جنوبی پیرو کے دریائے Apurimac سے شروع ہوتا ہے۔

مگر 51 سالہ امریکی مہم جو جیمز کونٹوس کا دعویٰ ہے کہ ایمازون کا ماخذ دریائے Mantaro ہے جو پیرو کے شمال میں واقع ہے۔

ایمازون کا ماخذ دریائے Mantaro ہے جو پیرو کے شمال میں واقع ہے۔

پیرو میں واقع دریائے Mantaro / فوٹو بشکریہ سی این این
پیرو میں واقع دریائے Mantaro / فوٹو بشکریہ سی این این

انہوں نے اس کی تصدیق کے لیے نقشوں، سیٹلائیٹ تصاویر اور جی پی ایس پیمانے استعمال کیے اور اس حوالے سے ایک تحقیق 2014 میں جاری ہوئی۔

ان کے بقول اس دریافت سے ایمازون کی لمبائی میں 77 کلو میٹر کا اضافہ ہو جاتا ہے۔

تحقیقی ٹیم کے مطابق نئی مہم میں جیمز کونٹوس کی تحقیق کو بھی مدنظر رکھا جائے گا مگر ہمارا مقصد ایمازون کے برساتی جنگل کے خطے کو دنیا کے سامنے لانا ہے۔

یہ سائنسدان ہزاروں میل کا سفر کریں گے جس دوران وہ پیرو، کولمبیا اور برازیل میں دریائے ایمازون سے گزریں گے۔

اس مہم کے دوران شمسی توانائی سے چلنے والی کشتیوں کی مدد لی جائے گی اور دنیا بھر کے سائنسدان اس کا حصہ بنیں گے۔

مگر یہ مہم آسان نہیں کیونکہ اس سفر کے دوران کشتیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ جنگلی جانوروں سے بھی سائنسدانوں کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

مگر اس کے ساتھ ساتھ انسانی مداخلت کا خطرہ سب سے زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ سائنسدان مقامی حکام سے سکیورٹی حاصل کریں گے۔

اس مہم کا نتیجہ جو بھی ہو یہ ٹیم اگلے مرحلے میں دریائے نیل کی پیمائش بھی کرے گی۔

ابھی خیال کیا جاتا ہے کہ دریائے نیل کی لمبائی 4132 میل ہے یعنی ایمازون سے 132 میل زیادہ۔

شمالی مغربی افریقا سے گزر کر مصر میں بحیرہ روم میں گرنے والے اس دریا کے ماخذ کے بارے میں بھی بحث موجود ہے اور ایک سے زائد افریقی ممالک کا دعویٰ ہے کہ یہ دریا ان کی سرزمین سے شروع ہوتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں