کچہری
میاں منیر احمد
ہم نے جو بھلا دیا
یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان‘ پاکستان کی تہذیب‘ ادب‘ ثقافت کے فروغ کا ایک نیا ادارہ اور تیزی سے ابھرتا ہوا ایک نام ہے‘ خلیل طوقار اس کے روح رواں ہیں‘ اکتوبر کا مہینہ ہماری ملکی اور سیاسی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتا ہے‘ پہلا مارشل لاء اکتوبر میں نافذ ہوا‘ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان اکتوبر کے مہینے میں ہی قتل ہوئے‘ ممتاز ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اکتوبر میں ہی دنیا فانی سے رخصت ہوئے‘ اکتوبر میں ہی جنرل مشرف آئے اور نواز شریف سیاسی منظر سے لاپتہ ہوئے‘جلاوطنی کے بعد وطن واپسی پر بے نظیر بھٹو پر قاتلانہ خود کش حملہ بھی اکتوبر میں ہی ہوا‘ غرض ایک نہیں اور بہت سے واقعات ہیں جو اکتوبر کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں‘ ڈاکٹر فاروق عادل کی کتاب ”ہم نے جو بھلا دیاٖٖ“ کی تقریب رونمائی بھی رواں ہفتے اکتوبر میں ہی رکھی گئی‘ نگران وزیر اطلاعات و نشریات مرتضی سولنگی مہمان خصوصی تھے‘ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ناصر محمود میزبان تھے‘ تقریب میں بہت سی باتیں ہوئیں‘ خوبصورت گفتگو ہوئی‘ہر مقرر نے کچھ نہ کچھ نئی بات کی اور تاریخ کے حوالے دیے‘ جبار مرزا نے نوک جھوک کی اور اس کا جواب بھی خورشید ندیم نے خوب دیا‘ کہ میں کتاب اور صاحب کتاب کو بھی جانتا ہوں‘ مرتضی سولنگی نے محتاط گفتگو کی‘ تاہم یہ درست کہا کہ اس ملک کو آگے بڑھانے کے لیے تمام مکاتب فکر کو اسی طرح ایک ساتھ بیٹھنا ہوگا جس طرح آج کی تقریب میں بیٹھے ہیں یہ ایک اچھی تقریب تھی‘ جس سے کم از کم رئیس الجامعہ نے تو بہت کچھ سیکھا ہوگا‘ کہ انہوں نے نہائت سرکار کی زبان میں تقریباً سرکاری نوٹ ہی پڑھا‘ انہیں شاید علم نہیں تھا کہ پیپلز یونیورسٹی کا نام جنرل ضیاء الحق کے دور میں تبدیل ہوا‘ جبار مرزا نے اس کی وضاحت کی‘ ایس ایم زمان‘ شیر محمد زمان‘ اسلامی نظریاتی کونسل کے بھی چیئرمین رہے ہیں‘ ان دنوں صاحب فراش ہیں‘ تقریب میں شریک نوجوان نسل اس تقریب سے کیا سیکھ کر گئی ہو گی یہ سب سے بڑا سوال ہے؟ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہے‘ اگر موضوع کی طرف آئیں تو ہم نے پاکستان میں جمہوریت اور اسلام بھلا دیا ہے‘ جمہوریت پر پہلا وار اکتوبر میں ہوا تاہم ایک جمہوری حکمران پر پہلا وار اس وقت ہوا جب گور نر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کے حکم کے باوجود اس وقت جنرل ڈگلس نے سری نگر اترے والی بھارتی فوج کا راستہ نہیں روکا گیا بلکہ جنرل کلاؤڈ نے قائد اعظم محمد علی جناح کو یہ معاملہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا مشورہ دیا‘ اور تجویز دی کہ دونوں ملکوں کے راہنماؤں کی ملاقات لاہور یا دہلی میں ہونی چاہیے‘ پھر فیصلہ ہوا کہ لاہور میں ملاقات بہتر رہے گی تاہم یہ ملاقات نہیں ہوسکی اور یوں اسی دوران بھارتی فوج سری نگر میں اتر گئی اور آج تک واپس نہیں گئی اور اب تو اقوام متحدہ میں مسلۂ کشمیر کے حل کے لیے جنرل اسمبلی میں کہیں ”لاپتہ“ ہی ہوگئی ہے اور سری نگر میں شہیدوں کے قبرستان تیزی سے آباد ہو رہے ہیں‘ کشمیری راہنماؤں کی قید کے دن لمبے ہوتے جارہے ہیں اور کل جماعتی حریت کانفرنس مسلۂ کے سیاسی حل کی تلاش میں نکلی ہوئی ہے ہم نے کشمیر میں کیا کچھ بھلا دیا اس پر بھی تو کبھی بات ہونی چاہیے‘ جب ہم سکول میں تھے تو ہر صبح سکول میں اسمبلی ہوا کرتی تھی‘ اور قومی ترانہ بھی ہوتا تھا‘ ہمیں یہ تربیت دی گئی کہ جب قومی ترانہ ہو تو کسی بچے نے بھی کوئی حرکت نہیں کرنی‘ باالکل سیدھا کھڑا ہونا ہے‘ یہ در اصل قومی ترانے کا ادب اور احترام ہے‘ لیکن کیا یہ بات سچ نہیں کہ ہم نے یہ سبق بھلا دیا ہے‘ پارلیمنٹ کے اجلاس کا اآگاز بھی تلاوت اور نعت کے بعد قومی ترانہ سے ہوتا ہے‘ لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ قوم کے منتخب نمائندوں میں کتنے ہیں جنہیں ہم نے قومی ترانہ کے ادب اور احترام میں سیدھا کھڑا ہوا دیکھا ہے‘ بہت ہی کم‘ جو کھڑے ہوتے ہیں ان میں بھی اکثر کوئی نہ کوئی حرکت کرتے ہیں رہتے ہیں‘ چلیے آگے بڑھتے ہیں‘ اکتوبر کی بات ہورہی ہے تو ماضے کا ایک قصہ بھی سن لیجیے‘12 اکتوبر1999 کو جمہوریت کو چلتا کیا جنرل مشرف آگئے‘ اقتدار میں آکر نواز شریف پر طیارہ اغواء کرنے کا مقدمہ بنادیا‘ حالانکہ نواز شریف اس وقت زمین پر کسی کی تحویل میں تھے‘ اور مشرف جہاز میں تھے‘ پہلے تو وہ جہاز سے اتر ہی نہیں رہے تھے‘ جب انہیں بتایا گیا کہ آل از اوکے تو تب بھی محتاط تھے‘ ان کے ساتھ ایک آفیسر نے منگلا میں کام کیا ہوا تھا‘ انہوں نے کنٹرول ٹاور کے ذریعے اپنا پیغام بھجوایا کہ آپ محفوظ ہیں جہاز سے اتر آئیے‘ جنرل مشرف نے پوچھا کون ہو؟ نام بتایا افتخار ہوں‘ پھر پوچھاکون افتخار‘ سر آپ کے ساتھ منگلا میں کام کیا ہوا ہے جواب دیا منگلا میں کام کیا ہے تو بتاؤ میرے کتوں کے نام کیا ہیں؟ افتخار نے جواب دیا‘ ہڈ اینڈ بڈی‘ مشرف بولے گڈ‘ اس کے بعد وہ جہاز سے نیچے اترے‘ اور مقدمہ بنایا کہ نواز شریف نے جہاز اغواء کرایا‘ مقدمہ چلا اور پھر فیصلہ بھی آیا‘ جسٹس رحمت حسین جعفری نے نواز شریف کو سزا دی اور باقی ”ملزموں“ کو بری کردیا‘ اب آپ خود ہی سمجھ لیں کہ یہ کیسی سازش تھی جو صرف اکیلے نواز شریف نے کی‘ حکومت سنبھالنے کے بعد بھی مشرف تنہا ء تہناء سے تھے‘ ان کے ساتھیوں نے کابینہ بنا کر دی‘ اور کابینہ کے پہلے ہی اجلاس میں کہا کہ میں آپ کو نہیں جانتا‘ لہذا آپ سب لوگ اپنا اپنا تعارف کرائیں‘ امریکی صدر بل کلنٹن آئے تو انہوں نے مشرف کے ساتھچ تصویر بنانے سے منع کردیا‘ وہ ایئر پورٹ سے سیدھے ایوان صدر آئے‘ اور مرکزی دروازے پر کھڑے ہو کر دستک دی‘ یہ منظر پوری دنیا نے دیکھا‘ اس وقت ایوان صدر میں رفیق تارڑ مکین تھے‘ لوگوں نے واہ واہ کی کہ کیا بہادر صدر ہیں‘ کہ امریکی صدر کو بھی مرکزی دروازے پر کھڑا کرکے انتظار کرایا ہے لیکن یہ قصہ کیا تھا‘ قصہ یہ تھا کہ عین انہی لمحات میں جناب تارڑ کو واش روم جانے کی حاجت ہوئی تھی‘ اس لیے وہ تاخیر سے مرکزی دروازے پر پہنچے جس کی وجہ سے بل کلنٹن کو انتظار کرنا پڑا‘ یہ بھی انہی واقعات کا ایک حصہ ہے جنہیں ہم اصل منظر سے ہٹ کر دیکھ اور سمجھ رہے ہیں‘ اب تک کے لیے اتنا ہی کافی ہے‘ بہر حال کتاب کی تقریب رونمائی کے لیے ہمارے ترک دوست‘ بھائی مہربان‘مخلص انسان جناب خلیل طوقار نے بہت محنت کی‘ ان کی محنت نظر بھی آئی