اللہ تعالی کی رحمت سے ناامید نہ ہوں

”ارشاد باری تعالی ہے : اور بیشک تمہارا رب تو لوگوں کے ظلم پر بھی انہیں ایک طرح کی معافی دیتا ہے اور بیشک تمہارے رب کا عذاب سخت ہے ۔ “یعنی اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں بخشنے والا ہوں تا کہ لوگ میری رحمت سے ناامید نہ ہوں اور میں عذاب بھی دیتا ہوںتا کہ میری ہیبت سے لوگ بے خوف نہ ہو جائیں ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر اللہ تعالی کی بخشش نہ ہوتی تو کسی کو اپنا آرام گوارا نہ ہوتا اور اگر اللہ تعالی کی پکڑ نہ ہوتی تو ہر کوئی اللہ تعالی کی رحمت پر تکیہ کر کے عمل چھوڑ دیتا ۔
امید ایک لگام ہے جو بندے کو کھینچتی ہے اور خوف ایک کوڑا ہے جو اسے آگے بڑھاتا ہے ۔ آدمی کا کمال یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کی محبت میں ڈوب جائے اور جتنا اس کی موت کا وقت قریب آتا جائے اس پر امید غالب ہوتی جائے اس لیے کہ یہ محبت الٰہی کو بڑھاتی ہے ۔ اگر مرد غفلت پسند نہ ہو تو اس پر خوف کا غلبہ رہنا چاہیے اس لیے کہ امید کا غلبہ اس کے لیے زہر قاتل ہے اور اگر آدمی عبادت کرتا ہے تو اس پر امیدغالب رہنی چاہیے ۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ تعالی سے ڈرتا ہے ہر چیز اس سے ڈرتی ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ کی امت میں سے کوئی شخص بلا حساب جنت میں جائے گا ؟ تو حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ شخص جو اپنے گناہوں کو یاد کرتے ہیں ۔ رسول کریم ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا : اللہ تعالی کے نزدیک آنسو کے اس قطرہ سے زیادہ کوئی قطرہ افضل نہیں جو خوف الٰہی میں بہایا گیا ہو ۔اور خون کے اس قطرہ سے کوئی خون افضل نہیں جو اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرتے ہو گرے ۔
حضرت حسن بصری کافی عرصہ کھل نہیں ہنسے ۔ لوگوں نے عرض کی کہ علم کی اس فراوانی اور کثرت عبادات کے باوجود کیوں اتنا چپ چپ رہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالی سے ڈرتا ہو کہ اس نے میرا وہ کام دیکھا جو اسے پسند نہ ہو اور فرما دے کہ میں تجھ پر رحمت نہیں کروں گا ۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی نہ مرے مگر اس حال میں کہ خدا ئے تعالی سے نیک گمان رکھتا ہو اور مزید ارشاد فرمایا : اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جیسا وہ مجھ سے گمان رکھے۔

اپنا تبصرہ لکھیں