کچھ بھی کہہ لیں‘ اور جس قدر مرضی دعوی کرلیے جائیں‘ حقائق چھپ نہیں سکتے‘ اس ملک کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والی نوجوان نسل کو سلامتی کا راستہ دکھانے میں اسلامی جمیعت طلبہ کا کردار کوئی نہیں چھین سکتا‘ اور نہ اس پر پردہ ڈالا جاسکتا ہے‘ تعلیمی اداروں کی طلبہ یونینز اور طلبہ تنظیموں نے اس ملک کو سیاسی قیادت دی ہے‘ جاوید ہاشمی‘ راجا ظفر الحق‘ احسن اقبال‘ رضا ربانی‘ لیاقت بلوچ اور عبدالماک بلوچ جیسے نمایاں نام طلبہ سیاست کے ذریعے سامنے آئے ہیں‘ اس وقت لال اور سبز کی بحث کا وقت نہیں ہے کوئی بتائے تو سہی کہ یہ لال لال لہرانا اور طلبہ یونینز کی بحالی کے مطالبات کے پیچھے کیا ہے؟ اسلام آباد میں ہونے والے مظاہرے میں این جی اوز کے کارکن کیوں شریک ہوئے‘ یہ سرخ کٹھ پتلیاں کہاں سے آئی ہیں‘سرخ چہرہ کیے، مرد کو پٹا ڈال کر کتا بنائے، نعرے لگاتی عورتیں اور ان کے ہمنوا مردکس تہذیب کے نمائندے ہیں سبز نے قربانی دی تو ایشاء سرخ ہوا تھا‘ نعروں سے کبھی انقلاب آیا ہے اور نہ تبدیلی‘ اس کے لیے قربانی دینا پڑتی ہے‘ ڈھاکا کے میدان میں عبدالمالک اترتے ہیں تو انقلاب آتا ہے‘ نواز خان‘ زبیر خان‘ محمد اسلم‘ اکرم گورایا جیسے پاکیزہ نوجوان جان ہتھیلی پر رکھتے ہیں تو فضا لال ہوتی ہے گفتار کے غازی کہاں تبدیلی لائیں گے؟ ہمیں علم ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے اور ہمیں ادراک ہے کہ اس کی راہ روکنا بھی ضروری ہے‘ امریکی نائن الیون کے بعد سے آج تک پوری دنیا میں ایک ہی بات کرتے ہیں کہ انتہاء پسندی ختم ہونی چاہیے‘ اسلام ہی وہ واحد دین اور مذہب ہے جس نے انتہاء پسندی کے خلاف علم بلند کیا‘ اور بچیوں کو زندہ درگور ہونے سے بچایا‘ اور حکم دیا کہ کسی بھی انسان کی زندگی اور جان کعبہ سے بھی ذیادہ قیمتی ہے‘ یہ انسانی زندگیوں کے عالی شان تحفظ کا یہ میرٹ اسلام نے قائم کیا ہے‘ لیکن امریکی زبان میں کہا جاتا ہے کہ اسلام انتہاء پسند ہے؟ وہ اس لیے کہتے ہیں کہ انہیں جواب دہی کے احساس والی حیات پسند نہیں ہے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز پر پابندی کے چالیس مکمل ہونے کو ہیں‘ اس فیصلے کے بعد ملک کی پارلیمنٹ کو سوچنے سمجھنے والی قیادت نہیں ملی بلکہ ایسی قیادت ملی جو قومیا سمبلی میں پہنچ کر محلے کی گلیوں اور نالیوں کی مرمت کے مطالبات کرتی ہے‘1970‘ کی دہائی میں طلبہ نے نظریاتی تحریک اٹھا ئی تھی‘1960 کی دہائی میں نظریاتی تشخص تعلیمی اداروں میں پروان چڑھایا تھا اور یونیورسٹیز آرڈینیس واپس ہوا تھا‘ اسلامی جمیعت طلبہ نے خواتین کے لیے الگ یونیورسٹی کا مطالبہ کیا‘ نجی تعلیمی اداروں کے قیام کی راہ میں رکاوٹ بنی‘ اور طلبہ کو پاکستان کے ملی‘ نظریاتی اور علمی تشخص کے دفاع کے لیے تیار کیا‘ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ملک میں طلباء تنظیموں کی بحالی کا عندیہ دیا ہے مگر ساتھ ساتھ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ طلباء تنظیموں کا دائرہ کارکیا ہونا چاہئے؟؟؟ درس گاہیں تعلیم وتربیت کامسکن ہیں اور طلباء تنظیموں کوطلباء کے حقوق کیلیے کام کرنے کا موقع ضرور ملنا چاہیے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بحالی سے قبل اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ طلباء تنظیموں کو منفی سیاسی رحجانات سے دوررکھاجائے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا ہے کہ ” جامعات مستقبل کی قیادت تیار کرتی ہیں اور طلبہ تنظیمیں اس سارے عمل کا لازمی جزو ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان کی جامعات میں طلبہ تنظیمیں میدان کارزار کا روپ دھار گئیں اور جامعات میں دانش کا ماحول مکمل طور پر تباہ ہوکر رہ گیا۔ لیکن یہ جو ” لال لال لہرائے گا ” کا نعرہ بلند کرکے سیاسی رنگ جمانے کی کوشش کی جارہی ہے اسے مزاحمت کیوں نہیں مل رہی؟ پورا معاشرہ اس کے خلاف مزاحمت بن جائے گا ابھی حال ہی میں یکم دسمبر 2019 کو الحمراء کمپلیکس, قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ” قومی طلبہ کنونشن ” ہوا جس میں طلباء نے شرکت کی۔ اس طلبہ کنونشن نے یہ پیغام دیا کہ طلباء تنظیموں کو کردار سازی, مستقبل کی قیادت کی تیاری اور حقوق طلباء کے تحفظ کے لیے فعال کردار اداکرناچاہیے تاکہ طلباء تنظیموں کی سرگرمیوں کے مثبت اثرات سامنے آسکیں
طلباء مستقبل کے معمار ہیں, اور ہر طالب علم کو تعلیم کے ساتھ مثبت ذہنی, فکری, علمی, ادبی اور اخلاقی تربیت کی بھی ضرورت ہے۔ اور طلباء تنظیمیں ان مثبت اور صحت مند سرگرمیوں کے فروغ میں بہترین کردار ادا کرسکتی ہیں۔ اگر طلبہ کو مناسب راہنمائی ملے گی تو وہ مستقبل کے مفید شہری بنیں گے ریاستِ مدینہ کا نام استعمال کرنے والوں نے جو کچھ غریب و متوسط طبقے کے پاس تھا وہ بھی چھین لیا صحت اور تعلیم کے شعبے کے بجٹ کو چار، چار فیصد کرنے کا دعویٰ ایک سے ڈیڑھ فیصد پر آگرا ہے۔ یونیورسٹی اور کالجز کی فیسیز کئی گنا بڑھا دی گئیں، اندرونی اور بیرونی ملک اسکالر شپ تقریباً ختم کر دیئے گئے طالبعلم اور معلم تعلیمی اداروں میں تعلیم وتدریس کے بجائے سڑکوں پر اپنے حقوق، آزادی اور تحفظ کے لئے احتجاج پر مجبور ہیں ملک بھر کی جامعات کے مجبور و محصور طلباء جو اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ، فیسز میں اضافہ روکنے اور طلبہ یونینز کی بحالی کے لئے پرامن جدوجہد کر رہے ہوں ان سب کے خلاف مقدمات بناکر گرفتاریوں کا شرمناک و نقصان دہ عمل دہرایا جا رہا ہے اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ طلباء واساتذہ حساس ہوتے ہیں۔ملک کی طاقت 60فیصد نوجوان طبقہ آپ کی طرف دیکھ رہا ہے طلبا کامقام اور مقدر سڑکیں نہیں بلکہ جامعات ہیں، سوشلزم، لبرل ازم، کیمونزم اور مذہب کی آڑ میں انتہاء پسندی پھیلانے کی خالق طاقتیں ہروقت شکار کی تلاش میں ہوتی ہیں لہٰذا ہمیں محتاط رہتے ہوئے اپنی نوجوان نسل کیآزادی اظہار اور حقوق کی پاسداری کے لئے متفقہ قانون سازی کرکے طلبا تنظیموں کو فوری بحال کرنا ہوگا
