آج سانحہ مشرقی پاکستان کی یاد تازہ کرنے کے ساتھ ساتھ قوم آرمی پبلک سکول پشاور میں دہشت گردوں کی بربریت سے شہید ہونیوالے ڈیڑھ سو بچوں اور اساتذہ کوبھی خراج عقیدت پیش کررہی ہے سانحہ اے پی ایس کو قوم کے دلوں سے کبھی محو نہیں ہوگا‘ اسے سانحہ کہہ لیں یا اسے المیہ کا نام دیں‘ کچھ بھی کہہ لیں دو متحارب فریق کا تصادم تھا‘ ایک فریق امن‘ تعلیم‘ اور ترقی یافتہ پاکستان چاہتا ہے اور دوسرا فریق یہاں بھارت‘ امریکا اور ملک دشمن قوتوں کے اشارے پر بد امنی پھیلانا چاہتا ہے‘ کہے کو دونوں مسلمان ہیں مگر اعمال مختلف ہیں‘ ایک فریق نے کلمہ کا یہ معنی لیا ہے کہ کوئی نہیں ہے معبود‘ سوائے اللہ کے‘ اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں یہ گروہ اس ملک میں اسلام کا حقیقی سماجی‘ معاشی‘ معاشرتی اور عدل کا نظام لانا چاہتا ہے اور دلیل کے ساتھ بات کرنے کا ہامی ہے‘ دوسرا فریق اگرچہ مسلمان ہے مگر اپنے نفس کا غلام ہے‘ اور اس کا نفس بھارت‘ امریکا اور ملک دشمن قوتوں کی مٹھی ہے انہی دو فریقوں کی باہمی کشمکش سے پشاور میں 150 سے زائد معصوم روحیں سفاک دہشت گردوں کی بھینٹ چڑھ گئیں نائن الیون تو امریکا میں ایک بار ہوا‘ مگر ہم پاکستانی اس نائن الیون کے بعد لاشیں اٹھاتے اٹھاتے تھک گئے ہیں مگر ہمیں ابھی بھی اس نائن الیون سے نجات نہیں مل سکی ہے دہشت گردوں اور خودکش حملوں کے متعدد واقعات میں سینکڑوں بے گناہ انسانوں کا خون بہہ چکا ہے جن میں زیادہ تر سیاسی شخصیات‘ سکیورٹی اداروں اور اہلکاروں کو ہی ٹارگٹ کیا گیاہے اس خون ناحق کا بدلہ قوم کو دہشت گردی کے ناسور سے مستقل خلاصی دلا کر ہی لیا جا سکتا ہے جس کیلئے ہماری عسکری اور سول قیادتیں پرعزم بھی ہیں اور اپریشن ضرب عضب کے بعد شروع کئے گئے آپریشن ردالفساد‘ کومبنگ اپریشن اور اپریشن خیبرفور کے ذریعہ ملک بھر میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑنے کیلئے نمایاں کامیابیاں بھی حاصل کررہی ہیں۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ دہشت گردی کی جنگ میں دی گئی ان بے بہا قربانیوں اور قومی معیشت کو حاصل ہونیوالے ناقابل تلافی نقصانات کے باوجود ہمارے کردار سے مطمئن نہیں اور آج پہلے سے بھی زیادہ تلخ لہجے میں امریکی صدر ٹرمپ خود بھی اور واشنگٹن اور پینٹاگون بھی پاکستان کو براہ راست دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں جبکہ پاکستان کی سپورٹ فنڈ کی گرانٹ روکنے اور اسے عالمی اقتصادی پابندیوں کی زد میں لانے سے بھی گریز نہیں کیا جارہا حد تو یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کے اندر کارروائی کا اسکے مکار دشمن بھارت کو بھی اختیار دے دیا ہے جو پاکستان کی خودمختاری کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے بلاشبہ دہشت گردی کے پس پردہ محرکات کا مکمل تدارک آج ہمارے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے کیونکہ بھارت اور افغانستان کی شہہ پر دہشت گرد آج بھی اس ارض وطن پر اپنے متعینہ اہداف تک پہنچ کر دہشت گردی کی گھناؤنی کارروائیاں کرتے نظر آتے ہیں تاہم اس کیلئے ہمیں امریکہ یا کسی اور کی ڈکٹیشن یا ڈومور کے تقاضوں کی ضرورت نہیں۔ ہم نے ملکی سلامتی کے تقاضوں کے تحت دہشت گردی کا خود ہی تدارک کرنا ہے جس کیلئے ہماری سکیورٹی فورسز پرعزم اور مصروف عمل بھی ہیں۔ اگر امریکہ دہشت گردوں کے تعاقب کے نام پر بھارت کو پاکستان کی نگرانی کا کردار سونپتا ہے تو اس حوالے سے 49 سال قبل کے سانحہ سقوط ڈھاکہ کے پس پردہ بیرونی سازشیں بھی ہماری سیاسی اور عسکری قیادتوں سے دفاع وطن کیلئے یکسو ہونے کی متقاضی نظر آتی ہیں۔ آج خوش قسمتی سے دفاع وطن اور ملکی و قومی مفادات کے تحفظ کیلئے تمام ریاستی ادارے بشمول سول اور عسکری قیادتیں ایک پیج پر ہیں اس لئے قوم کو امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کے پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے موثر توڑ کی توقع ہے۔ اگر پاکستان کو دولخت کرنیوالے بھارت کو آج امریکہ کی جانب سے دہشت گردوں کے تعاقب کے نام پر پاکستان کے اندر گھسنے کی ترغیب دی جارہی ہے تو یہ درحقیقت باقی ماندہ پاکستان کی سلامتی بھی کمزور کرنے کی سازش ہے جس کی روشنی میں آج یوم سقوط ڈھاکہ کا دن بھی ہے اس موقع پر ہماری سول اور عسکری قیادتوں کو دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کا بھرپور عہد کرنا اور درپیش خطرات اور چیلنجوں سے عہدہ براء ہونے کے ٹھوس اقدامات اٹھانے ہیں۔اگر دہشت گردی سے خلاصی کیلئے عالمی برادری بالخصوص بھارت اور افغانستان سے حکومت اور فوج کو سپورٹ ملتی تو اب تک دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہوتا اسی طرح اندرون ملک نیشنل ایکشن پلان کے مطابق دہشت گردوں کے سہولت کاروں پر کڑا ہاتھ ڈالا گیا ہوتا تو دہشت گردوں میں اکا دُکا کارروائیوں کی سکت بھی ختم ہو چکی ہوتی۔ دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور سرپرستوں کا احتساب بھی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے۔ اس سلسلہ میں دہشت گردوں کی اندرونی و بیرونی فنڈنگ کی بندش اور پشت پناہی کا خاتمہ ضروری ہے تو اس سے بھی زیادہ ضروری ملک میں موجود انکے سہولت کاروں پر آہنی ہاتھ ڈالنا ہے جس کیلئے افواج پاکستان نے ملک بھر میں کومبنگ آپریشن شروع کر رکھا ہے۔آج قوم بیک وقت سقوط مشرقی پاکستان اور سانحہ اے پی ایس پشاور پر غمزدہ اور دل گرفتہ ہے۔ اس موقع پر سیاسی اور عسکری قیادت کو سانحہ مشرقی پاکستان سے سبق حاصل کرتے ہوئے دشمن کو دفاع وطن کیلئے فی الواقع قوم کے سیسہ پلائی دیوار بننے کا ٹھوس پیغام دینا ہے۔ دہشت گردوں کی اب تک کی بہیمانہ کارروائیوں میں شہید ہونیوالوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا یہی بہترین طریقہ ہے کہ ملک کو دہشت گردوں کے ناپاک وجود سے مکمل طور پر پاک کر دیا جائے۔ یہ اسی صورت ممکن ہے کہ دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں کیخلاف مصلحتوں سے بالا ہو کر اور کسی بھی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر بے رحم آپریشن منطقی انجام کو پہنچایا جائے۔ اسکے ساتھ ساتھ مکار دشمن بھارت کی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے قومی یکجہتی کے جس عملی مظاہرے کی ضرورت ہے اس کیلئے وزیراعظم عمران خان سے قوم کو زیادہ توقعات وابستہ ہیں۔ ہمیں اندرونی طور پر اپنی کسی کمزوری کو اجاگر کرکے دشمن کو سقوط ڈھاکہ جیسی کوئی دوسری سازش پروان چڑھانے کا بہرصورت موقع نہیں دینا چاہیے۔ خدا اس وطن کو سلامت تا قیامت رکھے۔ بھارتی حکمران نہ صرف کشمیریوں کے خلاف بھیانک انسانی جرائم میں ملوث ہیں بلکہ تمام عالمی ضابطوں اور بین الاقوامی قوانین اور روایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہمسایہ ممالک میں مسلح مداخلت کے بھی مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔اس امر کی سنگین ترین مثال 16دسمبر 1971 کو پاکستان کو قوت اور سازشوں کے بل پر دو لخت کرنا ہے۔یہ بات کسی سے بھی غالباً مخفی نہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں سولہ دسمبر سیاہ ترین دن کی حیثیت اختیار کر چکا ہے کیونکہ 49 برس قبل بھارت کی کھلی جارحیت کے نتیجے میں وطن عزیز کو دو لخت کر دیا گیا تھا۔ اور اس سانحے کے 44 برس بعد سولہ دسمبر 2014 کو اس دن کی سیاہی میں مزید اضافہ ہوا ہمیں ان سانحات سے نجات کے لیے متحد ہو نا پڑے گا
