اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں گزشتہ روز فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کے حق میںقرارداد کی منظوری سے واضح ہے کہ غزہ میں فلسطینی عوام کے خلاف سات ماہ سے جاری وحشیانہ اسرائیلی کارروائیوں نے دنیا بھر میں یہ شعور عام کیا ہے کہ پون صدی پہلے برطانوی اور امریکی حکومتوں کی ملی بھگت سے فلسطینیوں کی سرزمین پر اسرائیلی ریاست کا جبراً قیام عدل و انصاف کے تقاضوں کے سراسر منافی تھا ۔امریکہ سمیت متعدد مغربی ملکوں میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں یونیورسٹیوں کے ہزاروں طلبا و طالبات کے مسلسل مظاہروں سے یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہے جبکہ تاریخی ریکارڈ سے ثابت ہے کہ اسرائیل کے بانی صہیونی لیڈر خود بھی تسلیم کرتے تھے کہ انہوں نے فلسطینیوں کی سرزمین ناجائز طور پر ہتھیائی ہے۔ اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان کے عالمی یہودی کانگریس کے صدر ناہم گولڈ مین کولکھے گئے خط میں اس سچائی کا برملا اعتراف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ’’اگر میں کوئی عرب لیڈر ہوتا تو اسرائیل سے کبھی سمجھوتا نہ کرتا۔یہ ایک فطری بات ہے۔ ہم نے اُن سے اُن کا ملک چھینا ہے۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ ہمارا تعلق اسرائیل سے ہے لیکن یہ دوہزار سال پہلے کی بات ہے۔ فلسطینیوں کا بھلا اس سے کیا واسطہ۔ ہاں دنیا میں یہودی مخالف تحریک، نازی، ہٹلر، آش وِٹز سب رہے ہیں، مگر کیا اس کے ذمہ دار فلسطینی ہیں؟وہ صرف ایک چیز دیکھتے ہیں کہ ہم یہاں آئے اور ہم نے ان کا ملک چرا لیا۔آخر وہ اس چیز کو کیوں قبول کریں؟‘‘ امریکی محققین پروفیسر جان میئر شیمر اور پروفیسر اسٹیفن والٹ نے اپنی کتاب ’’دی اسرائیل لابی اینڈ یوایس فارن پالیسی‘‘ میں ڈیوڈ بن گوریان کا یہ خط نقل کیا ہے۔ اس تاریخی حقیقت کی روشنی میں انصاف کا اصل تقاضا تو یہ ہے کہ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین واپس کی جائے تاہم عملی حقائق سے واضح ہے کہ کم از کم فی الوقت یہ ممکن نہیں۔تاہم عالمی برادری کی بھاری اکثریت اب فلسطینیوں کی حق تلفی کے کسی حد تک ازالے کیلئے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی کھل کر حمایت کررہی ہے جس کا ایک واضح مظاہرہ جنرل اسمبلی میں عالمی تنظیم کے 143ارکان نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کے حق میں پیش کی گئی قرار داد کو منظور کرکے کیا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ سمیت صرف 9 ملکوں نے قرارداد کی مخالفت کی جبکہ25 ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کے اقوام متحدہ کا مکمل رکن بننے کے لیے اہلیت تسلیم کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے سفارش کی ہے کہ وہ فلسطین کے اقوام متحدہ کے مستقل رکن بننے کی قرارداد کی حمایت کرے۔اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر ریاض منصور نے ووٹنگ سے قبل اپنی تقریر میں کہا کہ ہم امن چاہتے ہیں، ہم آزادی چاہتے ہیں۔ اس قرارداد کی حمایت میں ووٹ فلسطینی وجود کیلئے ووٹ ہے، یہ کسی بھی ریاست کے خلاف نہیں، یہ امن کے لیے سرمایہ کاری ہے۔ قرارداد کی منظوری پر فلسطینی صدرمحمود عباس کا یہ تبصرہ کہ دنیا فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے، عملی صورت حال کا عکاس ہے۔عالمی سطح پر فلسطین کے حق میں جو فضا قائم ہوئی ہے، جنرل اسمبلی میں امریکی مؤقف پر بھی اس کا اثر دیکھا گیا۔ ووٹنگ کے بعد اقوام متحدہ میں نائب امریکی سفیر رابرٹ وُڈ نے کہا کہ ہمارا ووٹ فلسطینی ریاست کی مخالفت کی عکاسی نہیں کرتا، ہم بہت واضح ہیں کہ ہم اس کی حمایت کرتے ہیں اور اسے بامعنی طور پر آگے بڑھانا چاہتے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مقصد فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ تاہم امریکہ کو اپنی نیک نیتی ثابت کرنے کیلئے سلامتی کونسل میں ویٹو کا ہتھیار استعمال کرنے کے بجائے جنرل اسمبلی کی قرارداد کی روشنی میں معاملات کو مثبت طور پر آگے بڑھانا ہوگا۔
