مسلم لیگ(ق) حکومت سے باالکل بیزار ہو چکی ہے

مسلم لیگ(ق) حکومت سے باالکل بیزار ہو چکی ہے اگر اب ان کو فنڈز نہ دیے گئے تو وہ بھی اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرلے گی اس وقت معاملہ مونس الہی کی وزارت کا نہیں بلکہ فنڈز اور صوبے میں مفادات کے تحفظ اور اختیارات کا ہے مسلم لیگ (ق) نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ چودھری مونس الٰہی کی وزارت کا باب اب بند سمجھیں ہمیں وزارت نہیں چاہئیے تحریک انصاف نے جو وعدے کیے تھے وہ پورے کیے جائیں دونوں جماعتوں میں انتخابی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوئی تھی لیکن تحریک انصاف نے اس کی خلاف ورزی کی تھی بعدمیں حکومت سازی کا مرحلہ آیا تو جو بات طے ہوئی اس کے تحت وفاق میں 2وزارتیں، 2صوبے میں اور اسپیکر پنجاب اسمبلی کا عہدہ قاف لیگ کو ملا طارق بشیر چیمہ کو وفاق میں لے لیاگیا اور صوبے میں ایک وزارت دی لیکن صوبے میں دوسری وزارت نہیں دی اور جو وزارت دی اس میں بھی مداخلت کی جارہی ہے تحریک انصاف کے شسکت خوردہ لوگ وزارتوں میں لگائے جارہے ہیں مسلم لیگ(ق) اب تحریک انصاف کا بوجھ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں لیکن حکمران وزرا اپنی نادانیوں سے باز نہیں آرہے ہیں مسلم لیگ (ق) یہ بھی کہہ رہی ہے کہ سیاست اور بیوروکریسی میں توازن قائم رکھا جائے دونوں کا اپنا اپنا کردار ہے لیکن تحریک انصاف نے سیاست اور بیوروکریسی کو ایک دوسرے کی نگرانی کے کام پر لگا دیا جس سے مسائل پیدا ہوئے اور اب بڑھ رہے ہیں حکومت کو گرانے کیلئے جھٹکے دیے جا رہے ہیں‘ بلوچستان نیشنل پارٹی ایک عرصے سے نالاں ہے مگر وہ خاموش ہے۔ جی ڈی اے بھی ناراض ہے مولانا فضل الرحمٰن دوبارہ پر تول رہے ہیں حکومت کے لیے مسلم لیگ(ق) کے بعد متحدہ کے مطالبات دردسر بن رہے ہیں حکومت سمجھتی ہے کہ ایم کیو ایم کے سات ووٹ پانسہ پلٹ سکتے ہیں یہ 16ماہ تک وزارتوں کے مزے لیتی رہی اب ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھ بیٹھی ہے تو کوئی تو وجہ ہوگی متحدہ کراچی کو اپنا سیاسی اثاثہ اور خود کو کراچی کا وارث سمجھتی ہے‘ لیکن مسائل کے حل کے لیے ذمہ داری لینے کو تیار نہیں‘ حکومت میں ہونے کی وجہ سے پیپلزپارٹی اور وفاق میں اتحادی ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف اور متحدہ کراچی کے مسائل کے حل کی ذمہ دار تھیں مگر یہ تینوں جماعتیں بری طرح ناکام ہوئی ہیں پیپلزپارٹی اورمتحدہ قومی موومنٹ اکتیس سال سے مسلسل اقتدار میں ہیں‘ تاہم مسائل حل نہیں کر سکی ہیں‘ ابھی خالد مقبول صدیقی کی وزارت سے مستعفی ہونے کی چال متحدہ کو مسائل حل نہ ہونے کے الزام سے بچانے کے لیے ہے حقائق یہ ہیں کہ الگ الگ نظر آنے کے باوجود نائن زیرو‘ بہادر آباد اور پی ایس پی سب ایک ہیں قدرت صرف متحدہ پر مہربان ہوئی اور وہ عمران خان کی اتحادی بن گئی تحریک انصاف اور متحدہ والوں کو مل کر کام کرنا چا ہئے تھا مگرکچھ نہ کرسکیں تبدیلی کے نام پر آنے والوں کی نااہلی نے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کردیا ہے رہی سہی کسر ایف بی آر نے نکال دی‘ بے روزگاری بڑھ رہی ہے، اسٹیٹ بینک نے سود کی شرح اتنی بڑھا دی ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے قوم بلبلا اُٹھی ہے حکومت اپنی اہلیت کھو چکی ہے جس دن مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی نے فیصلہ کرلیا اسی روز عوام اس حکومت کے عذاب سے نجات پالیں گے

اپنا تبصرہ لکھیں