بین الاقوامی معیارات کے ساتھ ہم آہنگی ضروری ہے، تاہم دستور کی اصل روح برقرار رہنی چاہیے: قانونی ماہرین

اسلام آباد:

بین الاقوامی قانون کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ ہم آہنگ اور مقامی تناظر، ثقافتی حساسیت، اور جمہوری اصولوں کے تحت نافذ کیا جانا چاہیے۔ اگرچہ عالمی سطح پر رابطہ ناگزیر ہے، تاہم بین الاقوامی معاہدوں کی منظوری میں پارلیمانی نگرانی کو نظرانداز کرنا نہ صرف قانون سازی کے اختیارات بلکہ ثقافتی ہم آہنگی کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ صرف ایک سوچے سمجھے، سیاق و سباق سے ہم آہنگ طریقہ کار ہی معنویت، شمولیت اور دیرپا اثرات کی ضمانت دے سکتا ہے۔ یہ بات انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز) آئی پی ایس (اسلام آباد کے زیرِ اہتمام سیمینار ”پاکستان کا آئینی خاکہ اور بین الاقوامی قانون“ میں کہی گئی، جو گفٹ یونیورسٹی، گوجرانوالہ کے اشتراک سے منعقد ہوا۔ سیمینار میں پاکستان، ملائیشیا اور بنگلہ دیش سے ممتاز قانونی ماہرین اور اسکالرز نے شرکت کی۔ شرکاء نے اسلامی فقہ اور جدید بین الاقوامی قانونی معیارات کے امتزاج پر تفصیلی گفتگو کی۔ چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمان نے پاکستان کے آئینی ارتقا کو منفرد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملکی آئین اسلامی اقدار اور عالمی قانونی اصولوں کا بامقصد امتزاج ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ روایت اور جدت میں تصادم نہیں بلکہ ہم آہنگی ممکن ہے۔ ان کے مطابق پاکستان کا آئین مذہبی تقاضوں اور عالمی معیارات کے مابین ہم آہنگی کی عملی کوشش ہے، تاہم عدلیہ کو اس ہم آہنگی کے عملی اظہار میں کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا، جس پر اندرونی تضادات اور بیرونی غلط فہمیوں کا دباؤ بھی غالب ہے۔ ڈاکٹر خالد مسعود، رکن شریعت اپیلیٹ بینچ سپریم کورٹ اور سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل، نے آفاقیت کے تصور پر روشنی ڈالی اور مغربی ریاستوں کے آفاقی اصولوں کا موازنہ اسلامی روایت سے کیا۔ انہوں نے علم کی موجودہ پولرائزیشن پر تنقید کرتے ہوئے علمی تنقیدی مکالمے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کے مطابق ”اسلامی قانون کو مختلف ریاستوں میں قومیتی شکل دی گئی ہے، لیکن اس کی صداقت کا معیار عموماً بیرونی پیمانوں سے طے کیا جاتا ہے۔“ انہوں نے اجتہاد اور تقلید جیسے بنیادی اصولوں کے نئے سرے سے مطالعے کی ضرورت پر زور دیا۔ سینئر وکیل سپریم کورٹ اور سابق وفاقی وزیر قانون، احمر بلال صوفی نے آئین کو محض قانونی دستاویز نہیں بلکہ اسلامی اور جمہوری اقدار پر مبنی اخلاقی و سماجی معاہدہ قرار دیا۔ انہوں نے آئین کی ارتقائی نوعیت اور اس میں انصاف، مساوات اور ذمہ داری جیسے اصولوں کی جڑوں کو اجاگر کیا۔ انہوں نے پاکستان کی بین الاقوامی معاہدوں پر عمل درآمد کو نہ صرف قانونی بلکہ دینی فریضہ قرار دیا، اور قرآن کی تعلیمات کا حوالہ دیتے ہوئے وعدوں کی پاسداری پر زور دیا۔ صوفی نے بنیادی حقوق میں کمی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے عدالتی اصلاحات، مساوی حقوق، اور مقامی حکومتوں کو فعال بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ ڈاکٹر عزیز الرحمٰن، ڈائریکٹر اسکول آف لاء، قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد، نے انسانی حقوق کے عالمی بیانیے اور ریاستی خودمختاری کے مابین تناؤ کی نشاندہی کی، جو ان کے مطابق بیشتر معاشروں میں پایا جاتا ہے۔ انہوں نے مغربی انسانی حقوق کے غیر مشروط آفاقی دعوے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بین الاقوامی کنونشنز کا حوالہ بعض اوقات بغیر پارلیمانی منظوری دیا جا رہا ہے، جو کہ ملکی دوہری قانونی روایت کو نظرانداز کر کے قانون سازی اور ثقافتی انفرادیت کو متاثر کر سکتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ بین الاقوامی قانون کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے، مگر اسے آئینی طریقہ کار اور مقامی تناظر کے مطابق اپنانا ناگزیر ہے۔ سپریم کورٹ کے وکیل عمران شفیق نے پاکستان میں شریعت کی تعبیر و تشریح کا تاریخی اور قانونی جائزہ پیش کیا۔ انہوں نے نوآبادیاتی مزاحمت سے لے کر آئینی اسلامی تشخص تک کے تین مراحل بیان کیے، اور عدالتی فیصلوں میں اسلامی دفعات کے کمزور ہونے پر تشویش کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق ہمیں اپنے قانونی ارتقا پر ملکیت کا دعویٰ کرنا چاہیے اور بیرونی قوانین کی سطحی نقل سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ملائیشیا کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کی ڈاکٹر شمرہایو عبدالعزیز نے اپنے ملک کے دوہری آئینی ماڈل کی وضاحت کی، جس میں اسلامی اور دیوانی قوانین کو ایک ساتھ مربوط کیا گیا ہے۔ انہوں نے اقلیتوں کے حقوق اور بین المذاہب قانونی تنازعات جیسے چیلنجز کو بھی اجاگر کیا۔ ان کے مطابق”ملائیشیا کا امن و ہم آہنگی کا ماڈل شریعت سے سمجھوتا نہیں بلکہ پرامن بقائے باہمی کا عملی طریقہ ہے۔“ بنگلہ دیش انسٹیٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ کی ڈاکٹر ممتہینہ نازبین نے حکمرانی میں خواتین کی شرکت پر گفتگو کرتے ہوئے اسلام کے جامع سیاسی تصور اور بنگلہ دیش کے آئینی اقدامات کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا: ”قیادت کے لیے معیار صنف نہیں بلکہ اہلیت ہے، جو قرآن کا واضح پیغام ہے۔“ سیمینار کے اختتام پر اس بات پر زور دیا گیا کہ پاکستان کے مخلوط قانونی ڈھانچے کی اہمیت برقرار ہے۔ شرکاء نے ابہامات کے ازالے، آئینی اصولوں کی مضبوطی، اور اسلامی قانونی نظام کے عالمی فہم کو بڑھانے کے لیے مزید علمی و ادارہ جاتی اقدامات کی ضرورت پر اتفاق کیا۔