سپریم کورٹ نے ملک کی عدالتی اور کارپوریٹ تاریخ کے سب سے طویل اور پیچیدہ مقدمات میں سے ایک کا فیصلہ سناتے ہوئے پی ٹی سی ایل کے ہزاروں ریٹائرڈ ملازمین کو پینشن اور اس میں ہونے والے اضافے کا حقدار قرار دے دیا ہے۔
جمعے کے روز چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 59 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں دو ایک کے تناسب سے یہ واضح کر دیا کہ اگرچہ نجکاری کے بعد یہ ملازمین اب سرکاری ملازم نہیں رہے، لیکن ان کی پینشن کے حقوق اسی طرح محفوظ رہیں گے جیسے وفاقی حکومت کے ریٹائرڈ ملازمین کو حاصل ہیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں حکم دیا ہے کہ 90 دن میں میکانزم بنا کر ادائیگیاں شروع کی جائیں۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اکثریتی فیصلہ تحریر کیا جس سے جسٹس امین الدین خان نے بھی اتفاق کیا جبکہ جسٹس عائشہ ملک نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اختلافی نوٹ لکھا ہے۔
اس مقدمے کا تعلق دراصل ان ملازمین سے تھا جو پرانے ٹیلی گراف اینڈ ٹیلی فون (ٹی اینڈ ٹی) ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتے تھے اور جنہیں 1990 کی دہائی میں ہونے والی نجکاری کے نتیجے میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی لمیٹڈ (پی ٹی سی ایل) میں منتقل کر دیا گیا تھا۔
عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نجکاری کے وقت جو قانونی تحفظ فراہم کیے گئے تھے، ان کا مقصد یہ تھا کہ ملازمین کو نقصان نہ ہو اور ان کے پنشن کے حقوق بھی اسی طرح زندہ رہیں گے جیسے سرکاری نظام میں رہتے۔
تنازعہ کب شروع ہوا؟
یہ تنازعہ اس وقت پیدا ہوا جب حکومت نے 1991 میں ٹی اینڈ ٹی ڈیپارٹمنٹ کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن (پی ٹی سی) میں بدل دیا اور پھر 1996 میں اسے مکمل طور پر کارپوریٹ ادارے پی ٹی سی ایل میں تبدیل کر دیا۔
ان تبدیلیوں کے دوران پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن ایکٹ 1991 اور پھر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن (ری آرگنائزیشن) ایکٹ 1996 میں یہ ضمانت شامل کی گئی کہ جو ملازمین اس منتقلی کے عمل میں شامل ہوں گے، ان کی ملازمت کی شرائط و ضوابط اور خاص طور پر پینشن کے حقوق پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
اس مقصد کے لیے ایک پینشن فنڈ، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایمپلائیز ٹرسٹ (پی ٹی ای ٹی) بھی قائم کیا گیا تھا تاکہ ریٹائرڈ ملازمین کو پینشن دی جاتی رہے۔ کئی برسوں تک پی ٹی ای ٹی وفاقی حکومت کی جانب سے پینشن میں کیے جانے والے اضافوں کے مطابق ہی پنشن بڑھاتا رہا، لیکن 2011 میں اس نے یہ اضافہ روک دیا۔
اس یکطرفہ فیصلے کے بعد ہزاروں ریٹائرڈ ملازمین نے عدالتوں سے رجوع کیا اور کہا کہ نجکاری کے وقت جو وعدے کیے گئے تھے، ان کی روشنی میں انہیں سرکاری ملازمین کے برابر ہی پینشن میں اضافہ ملنا چاہیے۔
اس فیصلے میں بڑی وضاحت سے کہا گیا کہ اگرچہ ان ملازمین کی سرکاری ملازمت کی حیثیت نجکاری کے بعد ختم ہوگئی لیکن 1991 کے ایکٹ کی دفعہ 9 اور 1996 کے ایکٹ کی دفعہ 36 نے ان کے پینشن کے حقوق کو ایک قانونی تحفظ فراہم کیا، جس کی روح یہی تھی کہ پینشن کو ایک زندہ حق سمجھا جائے۔ یعنی وقت کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت جیسے اپنے پینشنرز کی پینشن بڑھاتی ہے، ویسے ہی ان ملازمین کی بھی بڑھائی جائے۔
عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ ’موجودہ شرائط و ضوابط‘ کو محض اس وقت کی حالت میں منجمد کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ 1996 کے ایکٹ کی دفعہ 36(5) کے مطابق پی ٹی سی ایل پر لازم ہے کہ وہ ان پینشن فوائد کی ذمہ داری اسی صورت میں تبدیل کر سکتی ہے اگر ملازمین اس پر راضی ہوں۔
عدالت نے واضح کیا کہ پی ٹی ای ٹی کا کردار محض ایک انتظامی کردار ہے اسے پینشن ’ان کے استحقاق کی حد تک‘ دینی ہے، اور وہ اپنی مرضی سے اس میں کمی نہیں کر سکتا۔
فیصلے کا ایک اور اہم پہلو یہ تھا کہ کن ملازمین کو یہ اضافہ ملے گا۔ عدالت نے واضح کیا کہ صرف وہ ملازمین جو منتقلی کے وقت باقاعدہ سرکاری ملازم تھے وہی وفاقی حکومت کے مطابق پینشن ایڈجسٹمنٹ کے حق دار ہوں گے۔ اس میں کنٹریکٹ پر کام کرنے والے، یومیہ اجرت والے یا وہ لوگ جو بعد میں رضاکارانہ علیحدگی سکیم کے ذریعے ریٹائرڈ ہوئے شامل نہیں ہیں۔
عدالت نے پی ٹی سی ایل کے اس مؤقف کو مسترد کر دیا کہ سب ملازمین کو یکساں سلوک ملنا چاہیے اور کہا کہ قانون خود بھی اس میں فرق کرتا ہے کہ کون باقاعدہ سرکاری ملازم تھا اور کون نہیں۔ فیصلے میں خاص طور پر اس بات کو سراہا گیا کہ مصنوعی یکسانیت کے بجائے قانونی حقیقت کو دیکھا جائے تاکہ اصل مستحقین کو ان کا حق مل سکے۔
پی ٹی سی ایل کے مالی اثرات پر بات کرتے ہوئے عدالت نے متوازن راستہ اختیار کیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ پی ٹی سی ایل 90 دنوں کے اندر اندر اپنے مالی حسابات میں یہ ذمہ داریاں شامل کرے تاکہ کمپنی کے شیئر ہولڈرز اور قرض دہندگان کو بھی اس بارے میں شفاف معلومات مل سکیں اور ساتھ ہی ریٹائرڈ ملازمین کو ان کے واجبات کی ادائیگی غیر معینہ مدت تک مؤخر نہ ہو۔
مزید یہ کہ بقایا جات کی ادائیگی کے لیے ایک مرحلہ وار منصوبہ بنائے، جس کی نگرانی متعلقہ ہائی کورٹس کریں گی تاکہ عمل میں تاخیر نہ ہو۔ اس طرح عدالت نے ریٹائرڈ ملازمین کے حقوق اور کمپنی کے مالی استحکام دونوں کے درمیان توازن قائم کیا۔
جسٹس عائشہ ملک کا اختلافی نوٹ
دوسری طرف جسٹس عائشہ اے ملک نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ جب ان ملازمین نے پی ٹی سی ایل میں شمولیت اختیار کی تو ان کی سرکاری ملازمت کی حیثیت اور اس سے وابستہ تمام فوائد ختم ہوگئے، سوائے ان کے جو قانون میں صاف طور پر محفوظ کیے گئے ہوں۔
ان کے نزدیک ’موجودہ شرائط و ضوابط‘ کا مطلب محض وہ فوائد تھے جو منتقلی کے وقت مل رہے تھے نہ کہ مستقبل میں ہونے والے اضافے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اکثریت کا فیصلہ پی ٹی سی ایل پر ناقابل برداشت مالی بوجھ ڈالے گا اور یہ نجکاری کے عمل کے لیے بھی منفی پیغام ہو سکتا ہے۔ ساتھ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ اس سے ریٹائرڈ ملازمین کے دو مختلف طبقات پیدا ہوں گے، جن میں سے کچھ کو حکومتی پینشن ایڈجسٹمنٹ ملے گی اور کچھ کو نہیں، جو انتظامی طور پر بھی مشکل ہوگا۔