خلافت عثمانیہ کیسے وجود میں آئی؟


سلجوق سلطنت (SelJuks)
ترکی کا پرانا نام “اناتولیہ” تھا۔ تقریبًا 1000 سال پہلے اس کےمشرق میں سلجوقیوں کی حکومت تھی۔
یہ سلجوقی ترک نسل سے تعلق رکھتے تھے اور یہ سارا علاقہ رومیوں کے قبضے میں تھا۔ یہ سلطنت اناتولیہ اور یورپ کے مشرقی علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ جسکا مرکز ایک قلع تھا جسے آج “استبنول” کہتے ہیں۔
اس رومی سلطنت کو ایسٹرن رومن امپائر (The Eastern Empire) بھی کہتے تھے۔

اسی خطعے اناتولیہ میں ایک خوبصورت جھیل بھی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس جھیل میں ایک مگر مچھ اور مچھلی کی ملتی جلتی شکل کا کوئی جانور رہتا ہے۔ لیکن اس کا پکا علم نہیں کہ وہ ہے یا نہیں ۔ لیکن وان جھیل (Van Lake) بہت خوبصورت ہے ۔
اس کے کنارے پر ایک خوبصورت تاریخی چرچ بھی ہے۔ جسکی دیواروں پر بائبل مقدس کتاب کی داستان تراشی گئی ہے۔

PC: theculturetrip.com — Lake Van
جھیل کا ذکر اتنا ضروری کیوںِ؟
جھیل کے کنارے پر ایک مختصر لیکن بہت بڑی جنگ ہوئی ۔ اسی تاریخی جنگ کی یاد میں وہاں ہر سال اگست میں ایک تقریب منعقد کی جاتی ہے ۔ اس تقریب میں ترک صدر بھی شرکت کرتے ہیں ۔
اس تقریب میں ایک کھیل بھی پیش کیا جاتا ہے جس میں گھوڑ سوار گھوڑے دوڑاتے ہیں اور بھاگتے ہوئے پھر پیچھے کی جانب مڑتے اور تیر چلاتے ہیں اور نشانہ بازی کرتے ہیں۔
یہ اب ایک کھیل ہے مگر 948 سال پہلے انہی کے آباؤاجداد نے یہی سب کر کے رومیوں سے سب کچھ چھین لیا تھا ۔

ہوا کچھ اس طرح کہ گیارہویں صدی عیسوی میں اناتولیہ پر رومیوں اورسلجوقیوں کے درمیان جنگیں ہوتی رہتی تھیں ۔ لیکن بنیادی طور پر یہ سارا علاقہ رومی سلطنت (The Roman Empire) کا حصہ تھا۔
رومیوں نے ترکوں کو روکنے کے لیئے اپنی سلطنت کے ساتھ ساتھ ایک طویل دیوار بنا رکھی تھی۔ مگر اب حملے اتنے بڑھ گئے تھے کہ انہیں روکنا سرحدی قلعوں کے بس کی بات نا تھی۔ چنانچہ رومی شہنشاہ نے ترک خطرے کو مستقل ختم کرنے کے لیئے ایک بڑی فوج جمع کی۔ جسکی تعداد ایک لاکھ سے کچھ زیادہ تھی ۔ جب شہنشاہ جنگ کی تیاری کر رہا تھا تو سلجوقیوں کا سب سے بڑا سلطان ‘ارسلان’ مصر کے ساتھ جنگ میں الجھا ہوا تھا۔


اس کے کنٹرول میں بیت المقدس اور شام کے ساحلی علاقے تھے ۔
ظاہر ہے کہ وہ ایک وقت میں ایک ہی جنگ یا محاز لڑ سکتا تھا ۔ اس نے رومن شہنشاہ کو پیغام بھیجا کہ اگر وہ جنگ نہ کرے تو ترک اس کے علاقوں پر حملے بند کر دیں گے اور بدلے میں رومن سرحدی فوج بھی ترک علاقوں میں چھاپہ مار کاروائیاں نہیں کرے گی ۔ لیکن رومن شہنشاہ نا مانا اور جنگ کی کاروایاں جاری رہیں ۔
1071 میں رومن شہنشاہ اپنے لشکر کے ساتھ اناتولیہ میں پہنچ چکا تھا۔ اس نے رومی سلطنت سے جنگ کا فیصلہ کیا اور ایران آگیا۔ پھر اس نے 30000 کا ایک لشکر تیار کیا۔ جس میں گھوڑ سوار اور تیر انداز تھے ۔
اب ارسلان ایک لمبے راستے سے رومی فوج تک پہنچ گیا اور پیچھے سے حملہ کیا۔
اس اچانک حملے سے رومی سلطنت کو سنبھلنے کا موقع نا مل سکا ۔ رومیوں پر دوسری قیامت یہ ٹوٹی کہ ان کی فوج میں جو ترک سپاہی تھے۔ وہ عین وقت پر ارسلان کی فوج سے جا ملے ۔ جس سے رومیوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ جس سے باقی فوج کے حوصلے پست ہو گئے۔

اپنا تبصرہ لکھیں