میاں منیر احمد
ملت اسلامیہ کے ممتاز رہنماء محترم جناب سید منور حسن کراچی میں انتقال کرگئے‘ ان کی زندگی کا ہر ہر لمحہ الحمد اللہ کی مکمل تصویر تھا‘ وہ ہر حال میں اپنے رب‘ اپنے خالق و مالک کی رضا کے حصول کے لیے جیئے‘ کہہ دیجیئے کہ میری نماز‘ میری قربانی اللہ رب العالمین کے لیے ہے وہ قرآن کی اس آیت کے مکمل عکاس تھے‘ آج اس دنیا سے سید منور حسن ہی رخصت نہیں ہوئے‘ آمنہ مسعود جنجوعہ کے غم خوار‘ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مہربان‘ ڈاکٹر مرسی کے دوست‘ ان کے بھائی‘ نجم اربکان کے مخلص ساتھی‘ سید مودودی کے ہم سفر اور سب سے بڑھ کر ایک سچے عاشق رسولﷺ‘ خاتم النبین اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں‘ یہ دنیا ایک فانی شہ ہے یہاں کسی نے نہیں رہنا‘ کوئی بادشاہ ہو یا غلام‘ امیر یا غریب‘ کمزور یا طاقت ور‘ منصب دار یا ماتحت سب نے چلے جانا ہے اور رہے گا نام اللہ کا‘ جو کہتے ہیں ہمارے بغیر دنیا کا نظام نہیں چلتا‘ ایسے لوگوں کے کتبے قبرستانوں کی زینت بنے ہوئے ہیں‘ سید منور حسن نے کبھی اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی لمحے یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ طاقت ور ہیں‘ ہمیشہ اللہ کے بندے بن کر زندگی گزاری‘ اور ان کی صفت تھی کہ وہ اپنے محلے کی مسجد میں فجر کی نماز ادا کرتے اور پہلی صف میں بیٹھتے‘ جماعت اسلامی کی امارت کی ذمہ داری سے قبل اور بعد میں ان کی زبدگی کے شب و روز نہائت نظم و ضبط کے ساتھ گزرے ہیں‘ ان کی زندگی میں کبھی کسی نے بے ڈھنگی نہیں دیکھی‘ ہر کام سلیقے سے کیا‘ اللہ کی نصرت مانگی اور اللہ کے دین کی اقامت کے لیے اپنی زندگی وقف کیے رکھی‘ ہمیشہ سچ کہا اور کھی کسی طاقت ور سے مرعوب نہیں ہوئے‘ پاکستان کی سیاسی زندگی میں انہیں ایوب خان‘ بھٹو‘ ضیاء الحق‘ ان کے بعد نواز شریف‘ بے نظیر بھٹو‘ جنرل مشرف‘ شوکت عزیز جیسے حکمران دیکھنے کا موقع ملا‘ ملکی سیاسی قیادت میں کوئی ان جیسا جرائت مند نہیں تھا کہ جس نے آمر ہو یا جمہوری سکہ بند‘ سب کے سامنے ہمیشہ کلمہ حق کہا‘ اللہ کے دین کی اقامت‘ پاکستان کی سالمیت‘ عوام کی حقیقی فلاح‘ ملکی ترقی‘ خوشحالی اور امت مسلمہ کے سیاسی امیج کے لیے وہ ہمیشہ بے تاب رہے‘ نواز شریف کے دوسرے دور میں سپریم کورٹ کی عدلیہ کے ساتھ ان کا تنازعہ ہوگیا‘ جسٹس سجاد علی شاہ اور فاروق لغاری ایک جانب‘ وزیر اعظم ایک طرف کھڑے تھے‘ سید صاحب ان دنوں جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری تھے‘ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے کہا کہ وہ سید صاحب سے ملنا چاہتے ہیں‘ خیر میں نے گزارش کی اور سید صاحب ان سے ملاقات ہوئی‘ اس ملاقات میں کیا بات ہوئی یہ میں نے آج تک ان سے نہیں پوچھا تھا‘ تاہم سید صاحب نے ہمیشہ وہی بات کی جس حق کے ساتھ تعلق تھا‘ ان کے ساتھ تعلق چونکہ بہت رہا اور بے شمار واقعات ہیں‘ جنہیں لکھا جاسکتا ہے تاہم ایک بات ضرور لکھنا چاہوں گا‘ جن دنوں وہ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل اور امیر تھے‘ ان کا معمول تھا کہ وہ نماز عشاء کے بعد کبھی کسی کارکن کو جو ان کے ساتھ ربط میں ہو‘ کبھی انہوں نے رات نو بجے کے بعد تنگ نہیں کیا‘ سید صاحب نہائت صاحب الرائے شخصیت تھے‘ وہ جنرل ضیاء الحق کے اسلام کو ملکہ اور مدینہ کی گلیوں میں تلاش کرنے نکلے مگر انہیں جنرل ضیاء الحق کا اسلام نہیں ملا‘ اسی طرح انہوں نے جنرل مشرف کا نعرگ سب سے پہلے پاکستان‘ ملک کے کونے کونے میں تلاش کیا‘ ریگستان اور صحرا چولستان بھی گئے‘ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں‘ پنجاب کے میدانوں‘ کے پی کے چشموں اور سندھ کے ہاریوں کے پاس گئے مگر انہیں سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ نہیں ملا‘ ہاں انہیں لاپتہ افراد کے نوحے ملے‘ اور یہ نوحے ہر جگہ ملے‘
نائن الیون کے بعد جب امریکہ افغانستان پر چڑھ دوڑا تو ان کی رائے میں بہت واضح تھی‘ وہ پاکستان کی سرزمین‘ فضا اور بحری حدود امریکہ کے استعمال کے لیے دینے کے سخت خلاف تھے اور کھلے عام حکومت پر جائز تنقید کرتے تھے‘ اور جرائت کے ساتھ حکمرانوں کے سامنے سوالات اٹھائے‘ ایسی جرائت ملک کے سیاسی سیاسی رہنماء میں نہیں دیکھی‘ داکٹر عافیہ صدیقی کی امریکہ حوالگی کے خلاف ان کی جدوجہد‘ ان کی رائے اور جرائت مندانہ آواز اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی ہے‘ نائن الیون کے بعد جنرل مشرف نے دعوی کیا کہ اس نے چھ سو طالبان مجاہدین کے امریکہ کے حوالے کیے ہیں‘ سید منور حسن نے جنرل مشرف کے اس فیصلے پر ملک میں رائے عامہ ہموار کی‘ گلی گلی کوچے کوچے جاکر عوام کو بتایا کہ ملت اسلامیہ کی کتاب میں غداری کسے کہتے ہیں‘ ہر حکمران ان سے بہت خائف تھے اور کسی حد تک تنگ بھی‘ مگر سید منور حسن کی پشت پر ایک قوت تھی یہ قوت ان کی سچائی اور جرائت تھی انہوں نے جو بھی رائے بنائی‘ اس کے لیے ملت اسلامیہ کے مفاد‘ پاکستان کی اساس کے ہر ہر پتھر کو اپنی نظر میں رکھا‘ سید صاحب کے انتقال سے فلسطینی‘ کشمیری اور دنیا جہاں کے مظلوم مسلمان آج خود کو یتیم تصور کرتے ہیں‘ سید منور حسن کی جسارت سے دلی وابستگی تھی‘ جسارت جیسے اخبار کے لیے ان کے دل میں بہت قدر تھی اور سچی بات لکھی جائے تو سچ یہی ہے کہ آج اگر جسارت شائع ہورہا ہے تو یہ انہی کے فیصلے کی وجہ سے ہورہا ہے‘ وہ انتہائی سادہ زندگی کے قائل رہے‘ سچی درویش کی طرح زندگی گزاری‘ تعلیم یافتہ تھے‘ کمال کے باصلاحیت بھی تھے‘ جرائت مند بھی تھے اور فیصلہ سازی کی قوت بھی انہیں اللہ نے عطا کر رکھی تھی‘ چاہتے تو دنیا میں بہت کچھ کماسکتے تھے پیسہ دھیلہ کمانا ان کے لیے کوئی مشکل نہیں تھا‘ مگر جب وہ نیشنلسٹ زندگی چھوڑ کر محمد عربیﷺ خاتم النبین کی دعوت عام کرنے والے قافلہ سخت جان کا حصہ بنے تو سب کچھ اپنی جدوجہد پر قربان کردیا‘ سادگی اس قدر کہ اب کوئی سادگی تلاش کرے گا‘ سادگی اور تقویٰ کے لیے اپنی زندگی کھپا دینا ہی ان کی اصل پہچان ہے‘ جب بھی اسلام آباد ان سے ہر وقت ملاقات رہی‘ چاہے ان کی مصروفیت کتنی ہی ہو‘ ہمیشہ شفقت کی‘ بلکہ جب بھی ملتے‘ غور سے دیکھتے اور کندھے پر ہاتھ رکھتے اور پھر پیار سے کہتے‘”لگ رہا ہے کچھ کچھ صحت پکڑ لی ہے“ ان کا یہ جملہ ساری عمر یاد رہے گا‘ مگر یہ بھی اب ان جیسی شفقت ملے گی بھی نہیں‘ وہ بہت بڑے انسان تھے‘ منصب اور سیاسی پہچان ان کے سامنے کچھ نہیں تھی‘ اب منصب تو وہی ہیں مگر ان پر براجمان لوگ‘ ایسے ہیں کہ وہ وہ خود کو منصب سے بڑا سمجھتے ہیں‘ شفقت‘ پیار‘ محبت بھرے تعلق نام کی کوئی چیز ان کے دامن میں نہیں ہے‘’ سید منور حسن ہر لحاظ سے بڑے آدمی تھے انتہائی دیانت دار، متقی، سادہ طرز زندگی گزارنے والے۔ اپنی پوری زندگی تحریک اسلامی کے لئے وقف کر دی‘ قسم ہے انہوں نے واقعی بے داغ زندگی گزاری ہے وہ کراچی کے لیے بھی سوچتے تھے لیکن اسلام آور پاکستان‘ ملت اسلامیہ کے لیے سوچنا ان کے داعی ہونے کا تقاضہ تھا سید صاحب خوش اخلاق، خوش خلق انسان تھے جب وہ جماعت اسلامی کے ا میر تھے ان کی صاحب زادی کی شادی ہوئی دوست احباب کو دعوت نامے بھجوائے اور تاکید کی کہ مہمان تحفہ دینے کی زحمت نہ فرمائیں۔ اس کے باوجود احباب کچھ نہ کچھ تحائف لے گئے سید صاحب نے وہ تمام تحفے جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کرا دئیے، ان میں چودہ سونے کے سیٹ بھی شامل تھے ملکی سیاست میں ایسی مثال کہاں؟سید منور حسن شاندار زندگی گزار کر رخصت ہوئے ہیں درویشی اور استغنا کے ساتھ زندگی گزاری ہے اور اب شان کے ساتھ اللہ کے حضور پیش ہوگئے ہیں‘اللہ کریم ان کی بخشش فرمائے، ان کی روح کو سکون دے، ان پر خصوصی کرم فرمائے، آسانیاں عطا کرے، خطاؤں کونیکیوں میں تبدیل کرے‘ آمین