ریہ ٹاؤن کراچی کا خریدی گئی زمین سے زائد علاقے پر قبضے کا نوٹس

سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کا خریدی گئی زمین سے زائد علاقے پر قبضے کا نوٹس لیتے ہوئے سروے آف پاکستان سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔کیس کی سماعت کے دوران وفاق اور حکومت سندھ کے وکیلوں کے درمیان الزامات اور شکوے شکایات کا سلسلہ جاری تھا کہ عدالت نے دونوں سیاسی حریفوں پر واضح کیا کہ آپس کی لڑائی کو عدالت سے باہر جا کر لڑیں۔سپریم کورٹ میں جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کے خلاف فیصلے پر عمل در آمد کیس کی سماعت کی۔بنچ کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے کہاسوشل میڈیا پر یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ بحریہ ٹاؤن کراچی نے 16 ہزار 896 ایکڑ کے علاوہ بھی زمین پر قبضے کیے ہیں۔ جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا کہ عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زمین پر قبضے کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔بحریہ ٹاؤن کراچی کے وکیل علی ظفر نے جواب دیا سوشل میڈیا پر کوئی بھی من پسند بات کہہ دے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، بحریہ ٹاؤن نے کوئی قبضہ نہیں کیا۔جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ہم سروے آ ف پاکستان سے حد بندی پر مشتمل رپورٹ منگوا کر جائزہ لیں گے، بحریہ ٹاؤن کا موقف ہے مقررہ کردہ زمین سے ایک ایکڑ زمین بھی زیادہ نہیں لی۔بحریہ ٹاؤن کراچی کے وکیل نے کہا ہم نے ستمبر تک پیشگی 57 ارب روپے سے زائد رقم جمع کرادی ہے، کرونا کے پیش نظر ہمیں ریلیف دیا جائے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ آپ نے ستمبر تک قسط اد ا کر دی ہے، فی الحال آپ کی درخواست قبل ازوقت ہے، آپ کی درخواست کو ستمبر میں دیکھیں گے۔مقدمے کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت اور پسندھ حکومت کے درمیان نوک جھوک، الزامات اور شکوے شکایتوں کا سلسلہ جاری رہا۔اٹارنی جنرل خالد جاوید نے بتایا کہ سندھ حکومت نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی رقم بجٹ وصولیوں میں ظاہر کی ہے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ ہمیں بحریہ ٹاؤن کراچی کی رقم خرچ کرنے کیلئے کمیٹی کے تشکیل پر تحفظات ہیں، سیکرٹری پلاننگ اور وفاق کے نمائندوں کو کمیٹی میں شامل کرنے پر ہمیں اعتراض ہے۔جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا ہم نے شفافیت برتنے کیلئے کمیٹی تشکیل دینے کا کہا ہے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ آڈیٹر جنرل کی ایک رپورٹ میں وفاق کی طرف سے اربوں روپے کے گھپلوں کا زکر کیا گیا۔اس پر جسٹس اعجا ز الااحسن نے کہا کہ وفاق اور صوبہ آپس کی لڑائی کو اس مقدمے میں لیکر نہ آئے، ہم اس معاملے میں نہیں پڑیں گے۔سندھ حکومت کے وکیل نے کہا کہ ہمیں وفاق کی طرف سے ایک شہری کو کمیٹی میں شامل کرنے کی تجویز پر اعتراض ہے، وفاق کا اس میں کردار نہیں ہونا چاہیے۔جسٹس فیصل عرب نے تجویز دی اگر ہم ایک شہری کا نام تجویز کریں تو کیا آپ کو وہ قابل قبول ہوگا؟ سندھ اور وفاق کے وکلاء نے کہا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔سندھ حکومت کے وکیل نے کہا کہ صوبے میں وفاق کو یہ اختیار دینا کہ کون سا ترقیاتی منصوبہ بنانا ہے کون سا نہیں بنانا؟ ہمیں اس پر شدید تحفظات ہیں،وفاق مستقبل میں مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا منصوبوں سے متعلق کمیٹی اور عدالت نے طے کرنا ہے۔جسٹس فیصل عرب نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے پوچھا کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں وفاق خود سے کوئی منصوبہ بنانا چاہے تو اپنے خرچے پر بنائے۔سندھ حکومت کے وکیل نے کہا بالکل ایسے ہی ہے، وفاق کو دور رہنا چاہیے،پہلے سے جاری منصوبوں پر رقم خرچ نہیں ہوگی۔جسٹس اعجا ز الااحسن نے کہا بحریہ ٹاؤن کراچی سے حاصل شدہ پیسے بالکل نئے منصوبوں کیلئے ہیں۔جسٹس فیصل عرب نے کہا شرخ سود بدستور گراوٹ کا شکار ہے،ہم چاہتے ہیں پیسے کا درست انداز میں استعمال کیا جائے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا ہمیں ابھی تک وفاق نے دو سو چونتیس ارب روپے نہیں دیئے۔جسٹس فیصل عرب نے کہا وفاق اور صوبہ آپس کے اختلافات کو اس مقدمے سے الگ رکھے۔ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے وکیل نے عدالت کو بتایا ہماری گیارہ8 ہزار 68ایکٹر زمین واپس کی جائے۔جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا آپ کی یہ استدعا سپریم کورٹ مرکزی فیصلے میں مسترد ہو چکی ہے،یہ مقدمہ عمل در آمد سے متعلق ہے۔عدالت نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی طرف سے زمینوں پر قبضوں،سندھ حکومت کے اعتراضات اور وفاقی حکومت کے درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

اپنا تبصرہ لکھیں