تحریر حافظ شفیق کاشف
حج اسلام کا پانچواں رکن اور دنیا کے ہر مسلمان کی دلی خواہش ہے ۔اخراجات میںبے تحاشہ اضافے اور پاکستان کے روپے کی گرتی ہوئی قیمت نے غریب عوام سے سفر حج کی سکت بھی چھین لی ہے اور اب سعودی حکومت کی طرف سے آئندہ سالوں میں حج و عمرہ کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کی خبروں نے جہاں غریب عوام کو غمگین کر دیا ہے وہاں پر یہ ایک اچھی خبر ہے کہ موجودہ حکومت پاکستانی عازمین حج سے انڈونیشاء اور ملائشیاء کی طرز پر قسطوں میں پیسے وصول کرکے حج پر بھیجے پر غور کر رہی ہے حکومت اس میں کس قدر کامیاب ہوتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر سعودی حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ سیاحت کو انڈسٹری کا درجہ دے کر دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے سعودی عرب کے دروازے کھولنے ہیں اور عمرہ زائرین کی سالانہ تعداد جو اس وقت 9ملین ہے اس کو بڑھا کر 2030تک 30ملین کرنا ہے اسی طرح آخری سال حج 2019میں بیرون سعودی عرب سے 18لاکھ50ہزار عازمین حج نے فریضہ حج کی سعادت حا صل کی تھی اور 7 لاکھ کے قریب سعودی عرب میں مقیم مسلمانوں نے حج کی سعادت حاصل کی ہے اب 2030تک عازمین حج کی تعداد 40لاکھ سے زائد ہوگی اور سیاحتی ویزوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب کی حکومت بجٹ میں ٹریول ٹریڈاور سیاحت کی انڈسٹری سے سالانہ 100ارب ڈالر سے زائد حاصل کرنا چاہتی ہے اور اس پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا ہے ایک سوسال تک سعودی حکومت حج و عمرہ ویزہ کی فیس وصو ل نہیں کرتی تھی اور نہ ہی اس پر کوئی اضافی ٹیکس لاگو تھے ۔ اب نہ صرف ویزوں کی فیس دینی پڑے گی بلکہ ود ہولڈنگ ٹیکس ، انکم ٹیکس ، کارپوریشن ٹیکس وغیرہ بھی لاگو کر دیئے گئے ہیں ۔اسلامی ورثہ جیسے مقد س مقامات اور تاریخی سیاحتی مقامات کی تزئین ارائیش کا کام تیزی سے جاری ہے ۔یورپین ممالک کے پاسپورٹ کے حامل افرا د اور ان ممالک کے ویزا کے حامل ایشین شہریوں کو سعودی عرب کے تمام ائیر پورٹس پر آن آرائیول وزٹ ویز ا کے سہولت کا آغاز کرو نا وائرس سے پہلے ہی کر دیا گیا تھا اور اس پیش کش سے لاکھوں سیاحوں نے فائدہ اٹھایا جو خود سعودی حکام کے لیے بھی حیران کن تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاحتی ویزوں کے اخراجات حج و عمرہ ویزوں سے کم ہیں اس ساری صورت حال کے تناظر میں پاکستان کو اپنی حج و عمرہ پالیسی ترتیب دینی ہے جو کہ دسمبر جنوری میں متوقع ہے جس طرح گذشتہ سال موجودہ حکومت نے سابقہ حکومت کی حج پالیسی کو یکسر مسترد کرتے ہوئے عازمین حج کے لیے سبسڈی کو ختم کر دیا تھا جس کی وجہ سے اخراجات میں یقینا اضافہ ہونا تھا کیوں کہ سابقہ حکومت نے سبسڈی اور دیگر ذرائع اختیا رکرکے حج کو سستا کر رکھا تھا سعودی حکام موجودہ حج پالیسی سے خوش ہیں اور پاکستان کے حجاج کے بجٹ کو بڑھانا چاہتے ہیںتاکہ شکایا ت کا خاتمہ کیا جائے اسی لیے سعودی حکومت کی پہلی ترجیح یہی ہے کہ پاکستان کے تمام حج کوٹہ کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کیا جائے یا پھر سعودی عرب کی مارکیٹ میں مقابلے کے لیے سرکاری پیکج میں مزید اضافہ کیا جائے لہذا حکومت کو چاہیے کہ حکومت اپنی باقی مدت کے لیے حج کی مستقل پالیسی بنا کر حج کو نجی شعبے کے حوالے کر دے اور خود نگرانی کرئے کیوں کہ حکومت بھی سرکاری حج پیکج پر ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ روپے فی حاجی قومی بجٹ سے خرچ کر دیتی ہے ۔ اور شکایات پھر بھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ویسے بھی سعودی عرب میں حج و عمرہ کے انتظامات کے حوالے سے جو تبدیلیاں ہو رہی ہیں سرکاری سطح پر کم اخراجات میں حج کروانا حکومت کے لیے ممکن نہیں رہے گا ۔سعودی حکومت فیصلہ کر چکی ہے کہ سعودی عرب کا پرائیویٹ سیکٹر ہی حج و عمرہ انتظامات کرئے گا اور حکومت صرف نگرانی کرے گی اور نجی شعبے کی خدمات کی نگران ہوگی کیوں کہ ہر سال سعودی عرب کی تقریبا ساڑھے تین لاکھ تعداد میں نفری حج انتظامات میں حصہ لتی ہے جس کے اخراجات سعودی حکومت برداشت کر تی ہے آئندہ سالوں میں انھیں ممالک کے زائرین کو حج و عمرہ کے ویزے جاری ہوں گئے جو مالی طور پر مستحکم ہوں گئے اور اگر سرکاری سطح پر کوئی حکومت اس پالیسی کو نہیں قبول کر تی تو سعودی عرب براہ راست زائرین کو سروسز دینے کے لیے نجی شعبے پر انحصار کرئے گا کیوں کہ سعودی عرب نے پاکستان سمیت دنیا بھر کے لیے 2004میں حج و عمرہ کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنے کا بتدریج آغاز کر دیا تھا اگر اس وقت کے وزیر مذہبی امو ر اعجاز الحق کے سا تھ کیے گئے معاہدے کی پاسداری بعد میں آنے والے حکومتیں کرتی تو کئی سال پہلے ہی پاکستان کا حج کوٹہ نجی شعبے کے حوالے کر دیا جاتا ۔ کیوں کہ اخراجات میں اضافہ کہ باوجود بھی سرکاری سکیم کے حاجیوں کو منی اور عرفات میں کھانا نہیں، ملتا مناسب ٹرانسپورٹ نہیں ملتی اور مشاعر مقدسہ میں خیموں میں جگہ نہیں ملتی حکومت کا کام حج کروانا نہیں ہے بلکہ انتظامات کی نگر انی کرنا ہے اور جہاں تک تعلق ہے پرائیویٹ کے مہنگے حج کا تو حکومت اپنے حصے کا کوٹہ سرکاری پیکج اور سروس چارجز کے ذریعے پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے آفر کرئے تو بہترین نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان ہمیشہ پرائیویٹ سکیٹر کی حوصلہ افزائی کی بات کرتے ہیں اور پرائیوٹیزیشن کے حق میں ہیں اس لیے وزارت مذہبی امور کی کارکردگی کو بھی بہتر بنائیں اور ملک میں اتحاد بین المسلمین اور بین المذاہب ہم آہنگی پر کام کرنے دیں دینی مدارس و مساجد پر کام کرنے دیں۔ زکو ةاور دیگر امور پر توجہ دینے دیں موجودہ وزیر مذہبی امور ڈاکٹر پیر نو ر الحق قادری بھی اس موقف کے حامی ہیں کہ حج کے متعلق سعودی حکام کا موقف صحیح ہے اور حج کے انتظامات سعودی عرب نے کرنے ہیں اور 3ملین لوگوں کو حج کروانا ہے لہذا ضرورت اس مر کی ہے کہ سعودی تعلیمات و ہدایات کی روشنی میں ہی حج پالیسی مرتب کرنی چاہیے اس سے حجاج کی شکایات ختم کی جاسکتی ہیں انہوں نے مزید بتایا کہ سعودی حکومت نے حج انتظامات کے حوالے سے پاکستان کے ہر مطالبے کو تسلیم کیا ہے ۔ لہذاہمیں بھی چاہیے کہ سعودی حکام کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر ہم اپنے انتظامات کو بہتر بنائیں اور یہ بھی طے ہے کہ کرونا وائرس کے مہینوں اثرات کے ماحول میں حج 2021بھی متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا لہذا ابھی سے حج انتظامات کی تیاری کی جائے اور اس کے لیے فوری طور پرنجی شعبے کو متحرک کیا جائے کیوں ہوائی کمپنیوں سرکاری و نجی اداروں کے اخراجات میں بے پناہ اضافے کے بعد حج کے اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ہوگا ۔
[11:42 AM, 10/3/2020] +92 320 7800000: