جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے ایف اے ٹی ایف کے نام پر منظور کردہ اسلام آباددارالحکومت علاقہ جات وقف املاک ایکٹ 2020کے قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس حوالہ سے اس قانون کی منسوخی کا باقاعدہ نوٹس سینیٹ سیکریٹریٹ میں جمع کرا دیاہے۔نوٹس سینیٹ کے قواعد وضوابط مجریہ 2012کے قاعدہ 94کے تحت جمع کرایا گیا ہے۔
اس قانون کو منسوخ کرنے کے لیے جو بل جمع کرایا گیا ہے اسکے اغراض ومقاصد میں لکھا گیا ہے کہ فیٹف کے نام پر منظورہ کردہ وقف املاک سے متعلق موجودہ قانون مساجد، دینی مدارس اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے کے لیے قائم دیگر اداروں پر غیر ضروری قواعد و ضوابط لاگو کرکے ان اداروں کے لیے املاک وقف کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے، جوکہ سراسر ایک اسلامی فلاحی ریاست کے تصور کے بھی منافی ہے۔
بل میں کہا گیا ہے آئین کی دفعہ 227(۱)کے مطابق اسلام کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی۔
بل میں وقف کی شرعی حیثیت کے حوالہ سے کہا گیا ہے وقف کا اسلامی تعلیمات میں بہت اہم مقام ہے۔ وقف خالصتاً اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے قائم کیا جاتا ہے۔ موجودہ ایکٹ جوکہ ایف اے ٹی ایف کے نام پر منظور کیا گیا ہے، موجودہ قانون میں وقف کے اسلامی تصور کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا گیااور موجودہ وقف کا قانون بنیادی انسانی حقوق سے بھی متصادم ہے۔
بل میں مزید کہا گیا ہے کہ چیف کمشنر کا نامزد کردہ ناظم اعلی اوقاف کو لامحدود اختیارات دے دیے گئے ہیں اور اسکو مساجد، مدارس، دینی ادارے اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے چلنے والے اداروں کا مختار کل بنا دیا گیا ہے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ دینی مدارس جوکہ لاکھوں طلباء و طالبات کی تعلیم، رہائش، خوراک کا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں اور معاشرے کو اسلامی فلاحی مملکت بنانے میں بے لوث جدوجہد کررہے ہیں، ان کوایک فرد کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ وقف کرنے سے پہلے رجسٹریشن کرانے کے حوالہ سے شرائط اور طریقہ کار وقف کی حوصلہ شکنی کے مترادف ہے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ وقف کی رجسٹریشن کے لیے جو طریقہ کار دیا گیا ہے وہ انتہائی مشکل اور ان اداروں کو ختم کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔ پہلے سے رجسٹرڈ اداروں کو دوبارہ تکلیف دہ صورتِ حال سے لازمی گزرنے کا بھی پابند کیا گیا ہے۔وقف کے ادارہ کو کارپوریٹ ادارہ بنانے سے وقف کو ایک تجارتی اور مالی مفاد کا ادارہ بنا دیا گیا ہے،جوکہ اس کی اسلامی روح کے خلاف ہے۔
بل میں کہا گیا ہے ناظمِ اعلیٰ کو بذریعہ اعلامیہ اختیاردینا ٹھیک نہیں کہ وہ کسی بھی وقت،وقف املاک کا قبضہ، اس کا انتظام و انصرام، کنٹرول اور دیکھ بھال اپنے زیر اختیارکر لے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ موجودہ قانون کے مطابق کسی بھی دینی خدمات، تقاریب، مذہبی، روحانی رسومات کی ادائیگی کے لیے ناظمِ اعلیٰ سے پیشگی اجازت لینی پڑے گی۔ اس قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں اڑھائی کروڑ تک جرمانے کا اختیارناظم اعلی کو دیا گیا ہے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ یہ کہا ں کا انصاف ہے کہ ناظم اعلی اوقاف کے حکم کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔اس قانون کے ذریعے سرکار نے وقف کے تحت قائم اداروں کو اپنی تحویل میں لینے کا انتظام کیا ہے۔ناظم اعلی اوقاف کو یہ بھی اختیار دیا گیا ہے کہ وہ مذہبی اسلامی اداروں کو تعلیم دینے،تدریس کے لیے سیلیبس بنانے کے لیے ہدایات جاری کرے۔
بل کے اغراض ومقاصد کے آخر میں کہا گیا ہے کہ اسلامی تعلیمات میں صدقہ، خیرات، اسلامی تعلیمات کو عام کرنے اورو عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر خرچ کرنے کی بے پناہ ترغیب ملتی ہے۔ لہٰذا مساجد، دینی مدارس اور اسلامی تعلیمات کے فروغ کی خاطر املاک اور اموال وقف اور خرچ کرنے کے عمل کی حوصلہ شکنی کی بجائے حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ موجودہ قانون کی موجودگی میں وفاقی دارلحکومت میں وقف کیے گئے یا وقف کی جانے والی جائیدادیں،اداروں کو قائم کرنا اور چلانا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہوجائیگا۔لھذا اس قانون کا منسوخ کیے جانا ضروری ہے۔