سینیٹر سراج الحق نے پاکستان میڈیکل کمیشن ایکٹ 2020کو منسوخ کرنے کا نوٹس سینیٹ سیکریٹریٹ میں جمع کرا دیاہے

جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے پاکستان میڈیکل کمیشن ایکٹ 2020کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے باقاعدہ نوٹس سینیٹ سیکریٹریٹ میں جمع کرا دیاہے۔نوٹس سینیٹ کے قواعد وضوابط مجریہ 2012کے قاعدہ 94کے تحت جمع کرایا گیا ہے۔

اس قانون کو منسوخ کرنے کی وجوہات میں لکھا گیا ہے کہ موجودہ قانون منظور ہونے سے قبل پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ایک اتھارٹی تھی جس کی ملک کے اندر طب کے امور کی نگرانی کی ذمہ داری تھی۔جس کے پاس میڈیکل اور ڈینٹل ڈگری کے سرٹیفیکیٹ جاری کرنے،کلیئرنس سرٹیفیکیٹ،تجرباتی سرٹیفیکیٹ اور بیرون ملک مقیم پاکستانی ڈاکٹرز کو بیرون ملک ملازمت کی پہلے میڈیکل کلیئرنس لیٹر جاری کرنے کا بھی اختیار تھا۔

اس سے قبل میڈیکل کے شعبہ میں داخلہ کے بعد پانچ سالوں میں پانچ امتحانات ہوتے تھے اس کے بعد پرویثرنل میڈیکل سرٹیفیکیٹ ملتا تھا اور ڈاکٹر ہاوس جاب کے لیے اہل ہوتے تھے۔اب پانچ امتحانات دینے کے بعد ہاؤس جاب کے لیے چھ ماہ بعد دوبارہ امتحان دینا پڑے گا اور ہاؤس جاب کے بعد ایگزٹ امتحان دینا پڑے گا۔

جبکہ موجودہ قانون کے مطابق میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کو لا محدود اور بغیر ریگولیشن کے خودمختاری دی گئی ہے جو کہ اہم شعبہ میں عوام کی صحت کے تحفظ پر سمجھوتہ کرنے کے مترادف ہے۔کالجز کو سٹاف بڑھانے اور فیسوں کے تعین کا اختیار دے دیا گیا ہے۔موجودہ قانو ن کے منظور ہونے سے  میڈیکل کے شعبہ میں داخلہ لینے والے طلباء وطالبات پر آئے روز فیسوں میں اضافہ کی تلوارلٹکتی رہے گی۔

بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قانون کی شق (1)4کے مطابق کونسل جو کہ کمیشن کے حوالہ سے فیصلہ کرنے کا مجاز ہے اس میں میڈیکل شعبہ کے ماہرین کی بجائے غیر متعلقہ افراد کو ممبرز بنایا جائے گا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ قانون کی شق (2a)8کے مطابق ملازمین کو گولڈن شیک ہینڈ کے ذریعے فارغ کرنے کا اختیار حاصل کر لیا گیا ہے تاکہ ملازمین کے سروں پر کسی بھی وقت برطرفی اور فارغ کرنے کی تلوار لٹکتی رہے۔

جبکہ اس سے قبل ممبران کی تقرری کا کافی حد تک شفاف طریقہ کارتھا اور ڈاکٹرز کے نمائندہ افراد ہی ممبر بنتے تھے لیکن اب ممبران کی تقرری کا اختیار وزیر اعظم پاکستان کو دے دیا گیا ہے اور ممبران کی اہلیت بھی ڈاکٹرز کے شعبہ سے متعلق نہ ہے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ موجودہ قانون کے مطابق طبی شعبہ کے نصاب کی تیاری،چیکنگ کا اختیار ہائر ایجوکیشن کمیشن کو دے دیا گیا ہے جو کہ طبی شعبہ کے ساتھ زیادتی ہے اور اس طرح طب کا شعبہ بالکل ہی ختم ہو جائے گا۔

اس سے قبل بیرون ملک سے جو ڈاکٹرز تعلیم مکمل کرکے پاکستان آتے تھے ان کو پی ایم ڈی سی کے پاس ٹیسٹ دینا ہوتا تھا لیکن اچانک اس قانون کے ختم ہونے سے ان سب کے مستقبل کو بھی شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔

یا د رہے کہ صدر پاکستان نے 20اکتوبر 2019پاکستان میڈیکل کمیشن آرڈینس 2019 جاری کرتے ہوئے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو تحلیل کردیا اور تمام ملازمین کو ملازمت سے فارغ کر دیاتھااورآرڈینس کو سینیٹ میں پیش کیا گیا جس کو سینیٹ نے نامنظور کرتے ہوئے مسترد کر دیا۔ میڈیکل کے شعبہ کے مختلف افراد کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں مذکورہ آرڈینس کو چیلینج کیا گیا جس کو ہائی کورٹ نے ختم کردیا اور اپنے فیصلہ میں کچھ قانونی نکات اٹھائے تاکہ حکومت قانون سازی کرتے ہوئے ان کو بھی مدنظر رکھے۔لیکن حکومت نے انتہائی عجلت کے ساتھ اس قانون کو مورخہ 16ستمبر 2020مجلس شوری (پارلیمنٹ) میں اسوقت منظور کرلیا جب اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ممبران پارلیمنٹ جاری قانون سازی کے خلاف ایوان سے واک آؤٹ پر تھے۔

اس بل کے اغراض ومقاصد کے آخری پیراگراف میں کہا گیا ہے کہ چونکہ منظور ہونے والا قانون عوام اور متعلقہ شعبہ کے ماہر افراد اورمتعلقہ اداروں اورطبی شعبہ میں نمائندہ اداروں کے اعتماد سے محروم ہے اور قانون سازی کرتے ہوئے کسی بھی سطح پر تجاویز اور مشاہدات کو مدنظر نہیں رکھا گیا اس لیے ضروری ہوگیا ہے کہ اسکو منسوخ کیا جائے۔

اندریں حالات ضروری ہے اس قانون کو منسوخ کیا جائے تاکہ ایسی قانون سازی ہو جو کہ عوام اور خاص کر میڈیکل کے شعبے سے تعلق رکھنے والے طلباء وطالبات کے حق میں اور ان کے بہتر مفاد،طبی ماہرین اورنمائندہ اداروں کے مشورہ کے ساتھ کی جائے۔
اپنا تبصرہ لکھیں