مقبوضہ کشمیر میں 4لاکھ سے زیادہ ڈومیسائل غیر کشمیری ہندوئوں میں تقسیم

یکم اپریل 2020تک مقبوضہ کشمیر میں 4لاکھ سے زیادہ ڈومیسائل غیر کشمیری ہندوئوں میں تقسیم کئے جا چکے ہیں۔یہ بھارت کی طرف سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بد ترین مثال ہے۔کشمیریوں کا اس سے زیادہ استحصال اس سے پہلے کم ہی ہوا ہے۔بھارتی حکومت کی طرف سے یہ سازش کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لئے کی جا رہی ہے۔غیرکشمیری ہندوئوں کو لا کر مقبوضہ وادی میں بسایا جا رہا ہے تاکہ وادی میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے۔وادی میں گزشتہ 14مہینے سے کرفیو اور لاک ڈائون کی آڑ میں دن رات یہ کام کیا جا رہا ہے تاکہ آہستہ آہستہ کشمیر کے کلچر اور تہذیب و تمدن میں بھی تبدیلی لائی جا سکے تا کہ کشمیریوںکی شناخت اور پہچان کو اتنا زیادہ مسخ کر دیا جائے کہ کشمیری مسلمانوں اور کشمیری ہندوئوں میں فرق ختم ہو جائے۔بھارت نے یکم اپریل 2020سے مقبوضہ وادی میں Adaptation of State Laws Order 2020لاگو کر رکھا ہے جو کہ 5اگست 2019کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی قدم کے بعد سب سے بڑی غیر قانونی حرکت ہے۔یاد رہے کہ 5اگست 2019کو مودی سرکار نے بھارتی آئین سے آرٹیکل 370اور 35-Aکو منسوخ کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا تھا۔ان قوانین کا اطلاق نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی ہے بلکہ بھارتی آئین اور مقبوضہ کشمیر کے آئین کی بھی خلاف ورزی ہے۔مقامی کشمیریوں کو خصوصی حیثیت دراصل 1927میں مہاراجہ ہری سنگھ نے دی تھی جو اس وقت کشمیر کا فرماں روا تھا۔مقامی کشمیریوں نے اپنی اس خصوصی حیثیت کے لئے تگ و دو کی تھی۔خصوصی حیثیت کا مقصد یہ تھا کہ باہر سے آنے والے غیر کشمیری ہندوئوں کا داخلہ بند کیا جا سکے۔مہاراجہ کی کشمیریوں کو دی گئی خصوصی حیثیت کو بعد میں شیخ عبدللہ نے آرٹیکل 370اور35Aکی صورت میں بھارتی آئین کا حصہ بنوایا۔ان دو آرٹیکل کی وجہ سے 15اگست 2019تک کشمیریوںکی خصوصی حیثیت بر قرار رہی۔ڈومیسائل کے قوانین میں تبدیلی کے علاوہ بھی بھارتی حکومت نے آبادی کا تناسب ہندوئوں کے حق میں موڑنے کے لئے چار طریقے اپنا رکھے ہیں۔پہلاطریقہ یہ ہے کہ مقبوضہ وادی میں ریٹائرڈ آرمی آفیسرز اور جوانوں کے لئے کالونیاں بنائی جا رہی ہیں۔یہاں پر ان آفیسرز اور جوانوں کو لا کر بسایا جائے گا جنہوں نے کشمیر میں کم از کم 15سال تک سروس کی ہو کیونکہ نئے ڈومیسائل قوانین کے تحت ایسے فوجیوں کو مقبوضہ وادی کی شہریت دی جا سکتی ہے جنہوں نے کم از کم 15سال کشمیر میںسروس کی ہو۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ 17ہزار کنال اراضی ان ہندو پنڈتوں کی کالونیاں بنانے کے لئے مختص کی گئی ہے جنہیں 1990 میں زبردستی کشمیر سے دوسرے علاقوں میں بسایا گیا تھا تاکہ کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھایا جا سکے۔گورنر جگموہن کو راتوں رات گورنر کے عہدے پر لگایا گیا تھا تاکہ ہندوپنڈتوں کو کشمیر سے نکال کر دوسری جگہوں پر بسایا جا سکے۔ان پنڈتوں کو وادی سے نکال کر بھارتی فوج نے وہ شرمناک آپریشن کیا تھا جسے تاریخ میں “گائوکدل کے قتل عام”کے نام سے جانا جاتا ہے۔یہ آپریشن 21جنوری1990میں کیا گیا جس میں54معصوم اور نہتے کشمیریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جبکہ 300سے زیادہ کشمیری زخمی ہوئے۔تیسرا طریقہ یہ ہے کہ پاکستان سے آئے ہوئے ہندوئوں کو مقبوضہ وادی میں مختلف  جگہوں پر آباد کیا جائے ۔یہ ہندو جموں کشمیر میں 1947سے رہ رہے ہیں اور نئے ڈومیسائل قوانین کے مطابق انہیں مقبوضہ کشمیرکی شہریت دی جا سکتی ہے۔ چوتھے طریقے کے مطابق 800کنال اراضی سری نگر کے شمال میں امرناتھ یاترا کے مندر کوالاٹ کی جا چکی ہے۔جنگلات سے بھرپور اس زمین پر بھارت کے مختلف حصوں سے ہندوئوں کو لاکر بسایا جا رہا ہے ۔امرناتھ یاترا کے مندر کے بہانے یہاں پر ہندوئوں کو لاکر بسانے کا واحد مقصد علاقے میں ہندوئوں کی اقلیت کو اکثریت میں بدلنا ہے حالانکہ اس علاقے میں مسلمانوں کی آبادی 95فی صد ہے۔آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا بھارت کی حکومتوں کا ہمیشہ سے نصب العین رہا ہے اور یہ سلسلہ پنڈت جواہر لال نہرو کی حکومت سے شروع ہو ا تھا۔مسلمانوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ اسوقت بھارت پر بی جے پی کی حکمرانی ہے جسکے پاس دو تہائی اکثریت ہے جو کسی بھی قانون کو منسوخ کرنے یا تبدیل کرنے کے لئے کافی ہے۔بین الاقوامی برادری 1990سے مسلمانوں پر ہونے والی زیادتیوں کو خاموش تماشائی بن کر دیکھ رہی ہے لیکن کسی کو یہ ہمت نہیں ہوئی کہ کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر آواز اٹھا سکے۔بھارتی فوج اور پیرا ملٹری فورس کے ہاتھوں کشمیریوں پر ظلم ہو رہاہے۔کوئی پوچھنے وا لا نہیں کہ نریندر مودی نے کس قانون کے تحت گزشتہ چودہ مہینے سے وادی میں کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔کشمیریوں سے ان کی آزادی چھین کرانہیں ایک ایسی کھلی جیل میں قید کرکے رکھا گیا ہے جہاں وہ نہ تو آزادی سے کہیں آ جا سکتے ہیں اور نہ ہی آزادفضاء میں سانس لے سکتے ہیں۔بدقسمتی یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری اس ظلم و ستم کے خلاف اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔کشمیریوں کو امید تھی کہ بیرونی دنیا ان پر ہونے والی زیادتیوں کا نو ٹس لے گی۔اقوام متحدہ کشمیر کے علاقوں کو Union Territoriesبنائے جانے کے خلاف آواز اٹھائے گی لیکن اقوام متحدہ، یورپین یونین،او آئی سی اور دنیا کی بڑی طاقتیں مجرمانہ طور پر خاموشی کی مرتکب ہیں۔بھارت کی خواہش ہے کہ بھارت کی کسی ریاست میں مسلمانوں کی تعداد 30فی صد سے زیادہ نہ بڑھنے پائے۔کشمیر میں آبادی کا رد بدل بھی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔وقت آگیا ہے کہ حکومت پاکستان بھارت کے خلاف آئی سی جے میں مقدمہ دائر کر دے جس میں مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے جرم میں بھارت کو فریق بنائے۔اس میں یہ بھی بتایا جائے کہ بھارت کا یہ جرم 1949کے چوتھے جنیوا کنونشن کے بھی خلاف ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔              ریڈیوپاکستان کے ملا

اپنا تبصرہ لکھیں