میاں منیر احمد
پاکستان، اقوام عالم اور عالم اسلام میں انتہائی رنج اور گہرے صدمے کے ساتھ یہ افسوس ناک اطلاع سنی گئی کہ”ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے کا نعرہ لگانے والے قائد انقلاب جناب سید علی گیلانی صاحب انتقال کرگئے“ انا لللہ وانا الیہ راجعون. مرحوم حریت رہنماء ایک عرصے سے بیمار تھے اور انہیں قلب کا عارضہ لاحق تھا،92 سالہ سید علی گیلانی کچھ عرصے سے بیمار اور مختلف جسمانی عوارض میں مبتلا تھے۔ ان کے دل کے ساتھ پیس میکر لگا ہوا تھا ان کا پِتہ اور ایک گردہ نکالا جاچکا تھا جبکہ دوسرے گردے کا بھی تیسرا حصہ آپریشن کر کے نکالا جاچکا تھا، بدھ کی شب اپنی مجاہدانہ زندگی گزار کر شب,30 10بجے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، ان کی عمر 92 سال تھی وہ سات دہائیوں تک مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے متحرک رہے، ان کے انتقال پر جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے ٹوئٹر پر تعزیتی پیغام جاری کیا، اپنے ٹویٹر پیغام میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے کہا کہ سید علی گیلانی گزشتہ اور اس صدی کے عظیم مجاہدآزادی، سب سے بڑے پاکستانی اور دنیا بھر کے حریت پسندوں کیلیے امید و حوصلے کا مرکز تھے۔ پاکستان آج اپنے سب سے وفادار بیٹے سے محروم ہوا ہے۔ بھارتی سامراج کے سامنے ان کی جدوجہد تاریخ میں ایک ضرب المثل کے طور پر ہمیشہ موجود رہیگی، وزیر اعظم عمران خان، صدر مملکت عارف علوی نے تعزیتی پیغام جاری کیا اور وزیر اعظم نے ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا، گیلانی صاحب کے انتقال پر قومی پرچم ایک روز کے لیے سرنگوں رہا،سید علی گیلانی کے انتقال کی خبر ملتے ہی مقبوضہ وادی میں قابض بھارتی فوج کی نقل و حرکت میں اضافہ ہوگیا ہے اور علاقے میں طور پر کرفیو لگا دیا سید علی گیلانی کی خواہش تھی کہ انہیں سرینگر کے شہدا قبرستان میں سپرد خاک کیا جائے، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، سینیٹ میں قائد حزب اختلاف یوسف رضا گیلانی، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو،مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نواز، حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین،پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر کے چیئرمین شہریار آفریدی، کشمیر کمیٹی کے سابق چیئرمین فخر امام، مولانا فضل الرحمن، مسلم لیگ(ض) کے سربراہ محمد اعجاز الحق، مسلم لیگ(ج) کے سربراہ اقبال ڈار، مسلم کانفرنس کے سپریم لیڈر سردار عتیق احمد خان، مسلم لیگ(ن) کے چیئرمین راجا ظفر الحق اور کشمیر کمیٹی کے ڈی جی نسیم خالد، حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین،پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر کے چیئرمین شہریار آفریدی، کشمیر کمیٹی کے سابق چیئرمین فخر امام، مولانا فضل الرحمن، مسلم لیگ(ض) کے سربراہ محمد اعجاز الحق، مسلم لیگ(ج) کے سربراہ اقبال ڈار، مسلم کانفرنس کے سپریم لیڈر سردار عتیق احمد خان، مسلم لیگ(ن) کے چیئرمین راجا ظفر الحق اور کشمیر کمیٹی کے ڈی جی نسیم خالد، پی ایف یو جے کے صدر نواز رضا، اسلام آباد چیمبر آف سمال ٹریڈرز اینڈ سمال انڈسٹریز کے رہنماؤں کامران عباسی، عمران شبیر عباسی، چوہدری سعید، سجاد سرور، کامران اختر، محمد زاہد قریشی، پاکستان پریس کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر صلاح الدین مینگل،حریت رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشعل حسین ملک، جماعت اسلامی کے نائب امیر میاں اسلم، جماعت اسلامی اسلام آباد کے امیر نصراللہ رندھاوا، نائب امراء کاشف چوہدری،ملک عبدالعزیز اور دیگر رہنماؤں نے تعزیت کی، ان رہنماؤں نے کہا کہ سید علی گیلانی کی وفات بہت بڑا نقصان ہے’ان کی زندگی جبر اور پیشہ ورانہ طاقتوں کے خلاف ثابت قدم رہنے کے سلسلے میں ہمارے لیے ایک مثال ہے سید علی گیلانی کے انتقال پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ ان کے مشن کو آگے لے کر جایا جائے گا۔حریت رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشعل حسین ملک نے بھی اپنے ٹوئٹر پیغام میں سید علی گیلانی کی وفات پر دکھ اور غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کی زندگی جبر اور پیشہ ورانہ طاقتوں کے خلاف ثابت قدم رہنے کے سلسلے میں ہمارے لیے ایک مثال ہے،سید علی گیلانی 29 ستمبر 1929 کو پیدا ہوئے ہے ان کا نماز جنازہ مقبوضہ کشمیر کے علاوہ پاکستان اور دنیا بھر میں مختلف مقامات پر ادا کیا گیا حریت رہنما کے انتقال کے بعد مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی سکیورٹی فورسز نے ان کے گھر کے باہر خار دار تاریں لگا کر راستے بند کر دیئے تھے اور قابض اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ کر دیاگیا تھا،29 ستمبر 1929 کو پیدا ہونے والے سید علی گیلانی مقبوضہ کشمیر پر 72 سال سے جاری بھارتی قبضے کے خلاف جدوجہد کی توانا آواز تھے وہ اوریئنٹل کالج پنجاب یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے،سید علی گیلانی 29 ستمبر 1929 کو شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ میں پیدا ہوئے اور 1950 میں ان کے والدین نے پڑوسی ضلع بارہمولہ کے قصبہ سوپور ہجرت کی۔گیلانی نے اورینٹل کالج لاہور سے ادیب عالم اور کشمیر یونیورسٹی سے ادیب فاضل اور منشی فاضل کی ڈگریاں حاصل کیں۔1949 میں ان کا بحیثیت استاد تقرر ہوا اور مستعفی ہونے سے پہلے 12 سال تک وہ کشمیر کے مختلف سکولوں میں خدمات انجام دیتے رہے۔1953 میں وہ جماعت اسلامی کے رکن بن گئے۔ وہ پہلی بار 28 اگست 1962 کو گرفتار ہوئے اور 13 مہینے کے بعد جیل سے رہا کیے گئے۔ مجموعی طور پر انہوں نے اپنی زندگی کا 14 سال سے زیادہ کا عرصہ جموں و کشمیر اور بھارت کی مختلف جیلوں میں گزارا جبکہ گذشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے وہ اپنے گھر میں نظربند تھے۔سید علی گیلانی کی بدھ کی سہ پہر طبیعت خراب ہوئی اور رات ساڑھے 10 بجے ان کا انتقال ہوگیا۔ انہیں سینے میں جکڑن اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا،بزرگ رہنما سید علی گیلانی نے بھارتی قبضے کے خلاف جدوجہد کا آغاز جماعت اسلامی کشمیر کے پلیٹ فارم سے کیا تھا۔علی شاہ گیلانی مقبوضہ کشمیر کے سیاسی رہنما کا تعلق ضلع بارہ مولہ کے قصبے سوپور سے ہے مقبوضہ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے سب سے بڑے حامی تھے۔ وہ جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر کے رکن بھی رہے، وہ جموں و کشمیر میں بھارتی قبضے کے سخت مخالف اور مظلوم کشمیریوں کی توانا آواز سمجھے جاتے تھے،جموں و کشمیر کے ہندوستانی مرکزی علاقے میں اسلام اور پاکستان نواز کشمیری حریت رہنما تھے وہ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے رکن تھے انہوں نے جموں و کشمیر میں حریت پسندوں کی جماعتوں کی جماعت کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں وہ 1972، 1977 اور 1987 میں جموں و کشمیر کے سوپور حلقہ سے ایم ایل اے تھے وہ یکم ستمبر 2021 کو اپنی رہائش گاہ حیدر پورہ، سرینگر میں رات 10:30 بجے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے سید علی گیلانی کے انتقال پر سابق وزیر اعلیٰ مقبوضہ کشمیر محبوبہ مفتی نے اظہار تعزیت کیا ہے اور کہا ہے کہ سید علی گیلانی ہمیشہ اپنے اصولوں پر کاربند رہے، اختلاف کے باوجود سید علی گیلانی کی ہمیشہ عزت کی انتخابی سیاست میں انہوں نے کشمیر کے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ 2014 کے جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کا مکمل بائیکاٹ کریں، خود حکمرانی یا خود مختاری کی تجاویز کو قبول نہ کریں جو کہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور اس وقت کی حکمران نیشنل کانفرنس کی طرف سے پیش کی گئی تھی، سید علی گیلانی حیدر پورہ، سری نگر میں رہتے ہیں۔ گیلانی کے 2 بیٹے ہیں۔ نعیم اور نسیم، اور چار بیٹیاں انیشا، فرحت جبین، زمشیدہ، اور چمشیدہ، انیشا اور فرحت گیلانی کی دوسری شادی سے بیٹیاں ہیں۔ نعیم اور اس کی بیوی دونوں ڈاکٹر ہیں جو راولپنڈی پاکستان میں رہتے تھے اور طب کی پریکٹس کرتے تھے سید علی گیلانی کے چھوٹے بیٹے نسیم سرینگر کی ایک زرعی یونیورسٹی میں کام کرتے ہیں سید علی گیلانی کا پوتا اظہار ایک نجی ایئرلائن میں ملازم ہے علی گیلانی کی بیٹی فرحت جدہ، سعودی عرب میں مدنی ٹیچر ہے اور ان کے شوہر وہاں انجینئر ہیں، سید علی گیلانی کا پاسپورٹ 1981 میں ”بھارت مخالف” سرگرمیوں کے الزامات کی وجہ سے ضبط کیا گیا تھا 2006 میں اپنی حج کی رعایت کے ساتھ، اسے ہندوستان چھوڑنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کی مداخلت پر حکومت نے گیلانی کا پاسپورٹ ان کے بیٹے کو واپس کر دیا کینسر کے ابتدائی مراحل میں، یہ جان لیوا تھا اور سرجری کا مشورہ دیا گیا تھا۔ گیلانی کو برطانیہ یا امریکہ کا سفر کرنا تھا تاہم، امریکی حکومت نے ان کے ویزا کی درخواست کو کشمیر کے تنازعے میں ان کے پرتشدد انداز کا حوالہ دیتے ہوئے مسترد کردیا اور وہ سرجری کے لیے ممبئی گئے،6 مارچ 2014 کو، گیلانی سینے کے شدید انفیکشن سے بیمار ہو گئے، کچھ دیر بعد سری نگر میں اپنے گھر واپس آئے واپسی پر اسے دوبارہ گھر میں نظر بند کر دیا گیا مئی 2015 میں، گیلانی نے سعودی عرب میں اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے پاسپورٹ کے لیے درخواست دی۔ ہندوستانی حکومت نے پاسپورٹ نہ دیا کیونکہ گیلانی صاحب نے قومیت میں ہندستانی نہیں لکھا تھا