سویڈش پارلیمنٹ رواں ماہ کے آخر میں مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر بحث کرے گی یہ بحث حکمراں سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کے ارکان کی جانب سے جمع کرائی گئی تحریکوں کے باعث ہوگی، سویڈش پارلیمنٹ میں رکن پارلیمنٹ سرکن کوس سوشل ڈیموکریٹ رکن پارلیمنٹ جوہان بسر نے تحاریک پیش کی ہیں،دونوں قراردادیں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرتی ہیں اور بھارتی مظالم کو اجاگر کرتی ہیں۔ وہ اس مسئلے کو ایک بین الاقوامی مسئلہ کے طور پر دیکھتے ہیں جسے یورپی یونین اور اقوام متحدہ حل کریں گے۔ انہوں نے سویڈش حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور تنازع کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ سرکن کوس ترکی نژاد سویڈش رکن پارلیمنٹ ہیں اور وہ انسانی حقوق کے ایشوز پر بہت متحرک ہیں ماضی میں بھی سویڈش پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر کو باقاعدگی سے اجاگر کرتے رہے ہیں ان کے علاوہ دوسرے رکن پارلیمنٹ جوہان بسر سوشل ڈیموکریٹ رکن پارلیمنٹ ہیں جن کی انسانی حقوق کے لیے کاوششیں ہمیشہ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھی گئی ہیں، واضح رہے کہ رکن پارلیمنٹ سرکن کوس کی تحریر کشمیر خطے میں کئی دہائیوں سے جاری تنازع کی تاریخ سے آگاہی دیتی ہے اور 5 اگست 2019 کے غیر قانونی اقدامات پر روشنی ڈالتے رہے ہیں اور وہ اپنی تحریروں میں یہ نکات اٹھارہے ہیں کہ ‘آئین میں تبدیلی کے بعد سے 80 لاکھ لوگوں کے لیے زندگی تباہ کن رہی ہے کشمیر میں ہندوستانی فوجیوں کی زیادہ تعداد اس قدر ذیادہ ہے کہ یہ اس وقت اب دنیا میں سب سے زیادہ عسکری علاقہ ہے انہوں نے اپنی تحریروں میں مواصلات، موبائل نیٹ ورکس اور انٹرنیٹ اور عوامی اجتماعات کی پابندیوں کو بھی نمایاں طور پر واضح کیا انہوں نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کشمیر کی ناکہ بندی اور انسانی حقوق کے خلاف کریک ڈاؤن ختم کرے۔ اور بھارتی حکومت پر بھی زور دیتے چلے آئے ہیں کہ وہ کشمیریوں پر ظلم ذیادتی اور انہیں سزا دینا بند کرے ان کی جانب سے پارلیمنٹ میں جمع کرائی گئی تحریکات نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی صورتحال کو سنگین اور نازک قرار دیا ہے اور تمام فریقوں سے پرامن حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنے اور کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے اور انہیں آزادانہ حق دینے کا بھی مطالبہ کیا ہے،جوہان بسر ایم پی کی دوسری تحریک اس حقیقت کا ادراک رکھتی ہے کہ ‘.دو ایٹمی طاقتوں، بھارت اور پاکستان کے درمیان طویل تنازعہ کشمیر کو انسانی حقوق کے نقطہ نظر سے، بلکہ سیکورٹی پالیسی کے نقطہ نظر سے بھی ایک خطرناک تنازعہ بنا دیتا ہے۔ ‘اس سے مراد انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی میڈیا پر بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں داخل ہونے پر پابندی ہے انہوں نے ہندوستان اور پاکستان دونوں حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پائیدار امن حل اور مفاہمت کا عمل بنانے کے لیے بات چیت میں شامل ہوں۔ کمیونٹی، تنازعے کے حل کے لیے اپنی مکمل حمایت دے، جو کہ امن عمل کو فعال کرنے کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔دونوں تحریکیں رکسٹگ ویب سائٹ پر شائع کی گئی ہیں تاکہ بات چیت کی توقع کی جا سکے
