فیڈریشن آف رئلیٹرز پاکستان کے کوآرڈینیٹر اسرار الحق مشوانی نے کہا ہے سی ڈی اے میں پلاٹوں کی خریدو فروخت اور جائیداد کی ٹرانسفرز کیسز میں شفافیت لانے اور اس عمل میں تیزی لانے کے لیے انقلابی اقدام کی ضرورت ہے اور ہم سی ڈی اے حکام کو متوازن تجاویز دینے کو تیار ہیں جمعرات کو اپنے بیان میں انہوں نے کہا ہے سی ڈی اے میں عام سائل کی شکائت ہے کہ دفتر میں اس سے مناسب برتاؤ نہیں ہوتا جس سے سائل کی پریشانی بڑھ جاتی ہے اور یہ عمل ہر کام میں تاخیر کا باعث بن رہا ہے اسلام آباد اسٹیٹ ایجنٹس ایسوسی ایشن کے ساتھ مل کر ان مسائل کا حل نکالا جائے انہوں نے کہا ہے کہ اس وقت ٹیکس کا سارا بوجھ عوام اور کاروباری برادری پر ڈالا جا رہا ہے انہوں نے کہا کہ اگر ٹیکس کے نظام کو متوازن کر کے تمام شعبوں پر یکساں بوجھ ڈالا جاتا تو قرضوں کی ضرورت پڑتی نہ مہنگائی کا سونامی پوری قوم کو ڈبو رہا ہوتا۔ حکومت عوام سے سہولتیں چھیننے کے بجائے سہولیات میں اضافہ کر رہی ہوتی اور اشیا خورونوش کی قیمتوں میں ہو شربا اضافہ نہ ہوتا۔ انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے خفیہ معاہدوں کا خمیازہ پوری قوم ابتر معاشی صورتحال اور کمر توڑ مہنگائی کی صورت میں بھگتنے پر مجبور ہے۔عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا مشکل ہوچکا ہے اور الیکشن سے قبل کیے گئے تمام دعوے اور وعدے جھوٹے نکلے جس نے عوام کی مایوسی بڑھا دی ہے۔
اسلام آباد سمال چیمبر آف کامرس اینڈ سمال انڈسٹریز کے صدر چوہدری سجاد سرور‘ سابق صدر رانا ایاز احمد نے کہا ہے کہ سیلز ٹیکس کے قوانین میں تبدیلی کی وجہ سے درآمد شدہ خام مال کو ملک میں تیار ہونے والے خام مال سے سستا ہو گیا ہے جس نے مقامی صنعت کو مسائل سے دوچار کر دیا ہے جبکہ بھاری مقدار میں زرمبادلہ بھی ضائع ہو رہا ہے اپنے بیان میں کہا کہ یہ رجحان ملک میں صنعتوں کی بندش،بینک ڈیفالٹ، غربت، بے روزگاری محاصل میں کمی اور زرمبادلہ کے زیاں کا سبب بن رہا ہے اس لیے ان قوانین کا از سر نو جائزہ لیا جائے انہوں نے کہا کہ زیرو ریٹنگ کے خاتمہ کے بعد برآمدی صنعت مقامی منڈی سے خام مال خریدنے کے بجائے درآمدات کو ترجیح دی رہی ہے جس سے ملک میں کپاس، دھاگے اور خام کپڑے کی طلب کم ہو گئی ہے اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے خام مال تیار کرنے والے ہزاروں صنعتی یونٹ خطرات سے دوچار ہو گئے ہیں۔ایکسپورٹ انڈسٹری کو درآمد شدہ خام مال پر سیلز ٹیکس یا ڈیوٹی اد انہیں کرنا پڑتی جبکہ مقامی خام مال بھاری ٹیکس عائد ہیں اور ان صنعتوں کوریفنڈ کے لیے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے جس سے ان کی کاروباری لاگت بڑھ جاتی ہے
اسلام آباد اسٹیٹ ایجنٹس ایسو سی ایشن کے فنانس سیکر ٹری سید عمران بخاری نے کہا ہے کہ ٹیکس کا سارا بوجھ عوام اور کاروباری برادری پر ڈالا جا رہا ہےایک بیان میں کہا کہ کاروباری طبقہ نازک حالات میں بھی سب کچھ منظور کررہا ہے مگر بھاری ٹیکس کی ادائیگی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے معاہدوں کا خمیازہ پوری قوم ابتر معاشی صورتحال اور کمر توڑ مہنگائی کی صورت میں بھگتنے پر مجبور ہے