کاروباری طبقے کی مشکلات آراء اور توجہ طلب تجاویز

فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان کے کوآرڈینیٹر اسرار الحق مشوانی نے کہا ہے کہ سی ڈی اے وفاقی دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ ہے مگر یہاں اس کی کوئی کل بھی سیدھی نہیں ہے سی ڈی اے کے اعلی حکام اس بات کا جائزہ لیں کہ یہاں سائل کیوں پریشان ہوتے ہیں اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ سی ڈی اے سیکٹرز میں ہونے والی پلاٹوں کی خریدو فروخت کا سی ڈی اے سے ہی براہ راست تعلق ہے لیکن اکثر مشاہدہ یہ ہے کہ یہاں سائل رل جاتے ہیں اسلام آباد اسٹیٹ ایجنٹس ایسوسی ایشن بھی اس سلسلے میں اپنا کوئی کردار ادا کرتی ہوئی نظر نہیں آتی‘ جب کہ اسے بطورتنظیم بہتری کے لیے آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ سائلوں کی پریشانی ختم ہوسکے انہوں نے کہا کہ اگر سی ڈی اے میں پلاٹوں کی خرید وفروخت کے لیے مناسب ماحول اور انتظامات کر دیے جائیں تو سائلوں کی رہنمائی میں مدد مل سکتی ہے اور وقت کا ضیاع بھی نہیں ہوگا ورنہ تو اس ادارے میں پریشانیوں کا سونامی بہہ رہا ہوتا ہے اور سہولتیں باالکل نہیں ہیں

چیمبر سمال آف کامرس اینڈ سمال انڈسٹریز کے صدر چوہدری سجاد سرور‘ سابق صدر رانا ایاز احمد نے کہا ہے کہ سیلز ٹیکس کے قوانین میں تبدیلی کی وجہ سے درآمد شدہ خام مال کو ملک میں تیار ہونے والے خام مال سے سستا ہو گیا ہے جس نے مقامی صنعت کو مسائل سے دوچار کر دیا ہے جبکہ بھاری مقدار میں زرمبادلہ بھی ضائع ہو رہا ہے اپنے بیان میں کہا کہ یہ رجحان ملک میں صنعتوں کی بندش،بینک ڈیفالٹ، غربت، بے روزگاری محاصل میں کمی اور زرمبادلہ کے زیاں کا سبب بن رہا ہے اس لیے ان قوانین کا از سر نو جائزہ لیا جائے انہوں نے کہا کہ زیرو ریٹنگ کے خاتمہ کے بعد برآمدی صنعت مقامی منڈی سے خام مال خریدنے کے بجائے درآمدات کو ترجیح دی رہی ہے جس سے ملک میں کپاس، دھاگے اور خام کپڑے کی طلب کم ہو گئی ہے اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے خام مال تیار کرنے والے ہزاروں صنعتی یونٹ خطرات سے دوچار ہو گئے ہیں۔ایکسپورٹ انڈسٹری کو درآمد شدہ خام مال پر سیلز ٹیکس یا ڈیوٹی اد انہیں کرنا پڑتی جبکہ مقامی خام مال بھاری ٹیکس عائد ہیں اور ان صنعتوں کوریفنڈ کے لیے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے جس سے ان کی کاروباری لاگت بڑھ جاتی ہے

اسلام آباد اسٹیٹ ایجنٹس ایسو سی ایشن کے فنانس سیکر ٹری سید عمران بخاری نے کہا ہے کہ ٹیکس کا سارا بوجھ عوام اور کاروباری برادری پر ڈالا جا رہا ہے جبکہ سیاستدانوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ایک بیان میں کہا کہ قانون ساز ادارے زراعت سے وابستہ سیاستدانوں سے بھرے پڑے ہیں جو الیکشن میں کروڑوں روپے خرچ کر سکتے ہیں مگر ٹیکس ادا نہیں کرتے اور نہ ہی مرکزی یا صوبائی حکومتیں ان سے ٹیکس لینے میں سنجیدہ ہیں وہ لوگ کیسے حب الوطنی کا دعویٰ کر سکتے ہیں جنھیں نازک حالات میں بھی سب کچھ منظور ہے مگر ٹیکس کی ادائیگی منظور نہیں اگر حکومت جی ڈی پی میں 19.2 فیصد حصہ رکھنے والے زرعی شعبہ سے ٹیکس لے تو کاروباری برادری ٹیکس اقدامات کی مخالفت چھوڑ کر حکومت کے مطالبات مان سکتی ہے۔انھوں نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے خفیہ معاہدوں کا خمیازہ پوری قوم ابتر معاشی صورتحال اور کمر توڑ مہنگائی کی صورت میں بھگتنے پر مجبور ہے۔عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا مشکل ہوچکا ہے

اپنا تبصرہ لکھیں