ایم اے رشید کامیاب ہدایتکار،اور مکالمہ نگار تھے رافعہ راشد پکوان کی دکان چلارہی ہیں

پاکستان کو کامیاب فلمیں دینے والوں میں ایک نام ایم اے رشید کا بھی ہے۔ ایم اے رشید نے پاٹے خان کے نام سے پہلی فلم بنا کر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ وہ اپنے دور کے کامیاب ہدایتکار، فلمساز اور مکالمہ نگار تھے اور عالیشان گھر، بڑی گاڑیاں اور ایک پُرتعیش زندگی کے وہ مالک تھے ایم اے رشید صاحب نے 2 شادیاں کی تھیں اور ان کے ہاں 14 بچوں کی پیدائش ہوئی۔ ان میں سے ایک رافعہ راشد ہیں رافعہ راشد آج اپنی بیٹی اور نواسے کے ساتھ اسلام آباد کے نواحی علاقے ترامڑی میں واقع ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتی ہیں 55 سالہ رافعہ رشید عرف بنٹی آنٹی اپنی زندگی میں خوشحالی کے دن گزارنے کے بعد اب جب روزمرہ کے اخراجات اور اپنی بیٹی کے علاج پر ہونے والے خرچے کو پورا کرنے کے لیے پکوان کی دکان چلارہی ہیں، تو بھی ان کے چہرے پر کسی قسم کا رنج یا صدمے کے آثار نظر نہیں آتے رافعہ راشد اس وقت اسلام آباد میں فوڈ کارنر چلاتی ہیں رافعہ رشید کہتی ہیں کہ ’میرے والد کو فلم قاتل کی تلاش پر صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا، انہوں نے 47 سال پاکستان کی فلم انڈسٹری کی خدمت کی انہوں نے مزید بتایا کہ ’میرے شوہر اب میرے ساتھ نہیں ہیں، ایک بیٹی ہے، جو بائی پولر ڈس آرڈر کی مریضہ ہے۔ والد زندہ تھے تو لندن سے ماہانہ 50 ہزار روپے خرچہ بھیجا کرتے تھے، سسرال میں نوکر چاکر بھی تھے، بیٹی پیدا ہوئی اور جب اسکول جانے لگی تو امتحانات میں اول نمبروں کے ساتھ پاس ہوا کرتی تھی، لیکن آگے چل کر اسے بائی پولر ڈس آرڈر کا مرض لاحق ہوگیا۔ جب بیٹی کی شادی کروائی تب داماد اور ان کے گھر والوں کو بتادیا تھا کہ اسے یہ مرض لاحق ہے۔ ابتدائی دنوں میں ان کا رویہ ایسا تھا کہ ہمیں لگا کہ وہ بڑے ہمدرد اور انسان دوست لوگ ہیں گزرتے وقت کے ساتھ لاہور کے 2 گھر، سونا اور بچائی ہوئی رقم سب بیٹی کی بیماری اور داماد کے اخراجات کی نذر ہوگئے۔ پیسے ختم ہوئے تو داماد نے بھی آنا جانا چھوڑ دیا اور شوہر تو پہلے ہی چھوڑ چکا تھابنٹی آنٹی گزرتے وقتوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’قتیل شفائی جیسے لوگ ہمارے گھر میں ٹھہرا کرتے تھے۔ ہماری پرورش ایسی ہی شخصیات کے زیرِ سائے ہوئی۔ احمد ندیم قاسمی ہمارے پڑوس میں رہتے تھے۔ انکل محمد علی، زیبا آنٹی، ندیم انکل سمیت بہت سارے فلمی ستارے ہمارے گھر آیا کرتے تھے اچھے وقت کو یاد کرتے کرتے اچانک بُرے دن یاد آئے تو وہ کہنے لگیں کہ ’ایک وقت ایسا بھی آیا کہ لاہور میں مجھے اولڈ ایج ہوم میں ایک سال گزارنا پڑا

اپنا تبصرہ لکھیں