28 مئی 1998ء کو آج ہی کے دن پاکستان نے بھارت کی طرف سے ہونے والے ایٹمی دھماکوں کے توڑ اور جواب کے طور پر پانچ ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کو ورطہ ء حیرت میں ڈال دیا اور بھارت جیساازلی دشمن بھی اس ایٹمی دھماکے پر انگشت بد نداں رہ گیا۔ 1974ء کے اسی مئی کے مہینے کی گیارہ تاریخ کو بھارت نے ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کو اپنے ایٹمی طاقت ہونے کی اطلاع دی تھی اور پاکستان کو یہ پیغام دیا تھا کہ بھارت ایک ایٹمی طاقت بن چکا ہے لہٰذا اس سے لڑائی کے بارے میں سوچنا بھی نہیں۔ بھارت کی طرف سے ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد اگرچہ ہمارے لیے کوئی دوسرا راستہ یا آپشن نہیں تھا سوائے اس کے کہ ہم بھی اس کے جواب اور اپنی سلامتی کے تحفظ کے لیے ایٹمی صلاحیت سے ہمکنار ہوں۔ امریکہ سمیت اس دور کی دیگر ایٹمی طاقتیں بھی ہمیں اپنے دفاع کا یہ جائز حق دینے کو تیار نہیں تھیں۔ وہ بھارت کو تو ایٹمی دھماکے کرنے سے نہ روک سکیں لیکن پاکستان پر ہر انداز اور ہر لحاظ سے دبائو ڈالنے لگیں۔ کہیں لالچ اور ترغیب کے ذریعے اور کہیں معاشی پابندیوں کی دھمکیوں کے ذریعے ہمیں ایٹمی طاقت بننے سے باز رہنے پر مجبور کیا جانے لگا، لیکن پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم کے عزم صمیم اور ہمت و جرأت کے آگے کسی کی نہ چل سکی اور پاکستان کی حکومت کو تمام تر دھمکیوں اور ترغیبات کے باوجود دھماکے کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔
بھارت کو اس کی زبان میں جواب دینا اس لیے بھی ضروری تھا کہ وہ ایسا بدطنیت ہمسایہ ہے جو ہر وقت موقع میں تلاش میں رہتا اور کسی بھی وقت جارحیت کا ارتکاب کر سکتا ہے۔ چنانچہ بھارت کے انہی مکروہ عزائم کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایک ایٹمی ملک بنانے کا تہیہ کر لیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے ‘‘ چنانچہ انہوں نے اپنے اسی عزم کی تکمیل کے لیے منصوبہ بندی شروع کر دی۔ انہوں نے ملک کے مایہ ناز ایٹمی سائنسدان اور ممتاز میٹالرجیکل انجینئر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہالینڈ سے پاکستان بلوایا ا ور انہیں یہ ٹاسک سونپا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اس مقصد کے لیے فری ہینڈ دیا گیا اور ان کی مرضی کی ٹیم کے چنائو کے مواقع میسر کیے۔ تمام ضروری فنڈز اور ادارہ جاتی معاونت فراہم کی گئی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہوٹہ کے قریب لیبارٹری اور ریسرچ انسٹیٹیوٹ قائم کیا اور پھر دن رات اس مقصد کے حصول کے لیے یکسو ہو گئے۔ انہوں نے بیرونی ممالک سے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوئے ضروری مواد منگوایا اور پوری آزادی اور خودمختاری کے ساتھ کام شروع کر دیا۔ ان کی ٹیم نے دن رات ایک کر کے بالآخر وہ منزل پا لی جس کیلئے وہ مسلسل محنت اور جانفشانی کے ساتھ سرگرم عمل تھے۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں پاکستان کے سائنسدانوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سربراہی میں اگرچہ ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل کر لی تھی ۔ تاہم یہ اعزاز میاں محمد نواز شریف کے حصے میں آیا جن کے دور میں بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان کا ایٹمی بٹن دبانے کا فیصلہ کیا گیا