انتشاری بھارت ہے، ہم نہیں
تحریر۔ انجنیئر افتخار چودھری
روزنامہ پل پل نیوز کی شاہ سرخی ہے کہ جعفر ایکسپریس کے پیچھے بھارت ہے یہی چیز میں گزشتہ دو دنوں سے یہ کہہ رہا ہوں کہ ازلی دشمن کی طرف دیکھو انتشاری وہ ہے ہم نہیں ہیں اور یہ ہم نہیں کہہ رہے ہماری وزارت خارجہ کہہ رہی ہے
پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت دن بدن بڑھ رہا ہے، اور ہر سانحہ ایک نئی سیاسی بحث کو جنم دے رہا ہے۔ حالیہ ٹرین حادثے پر وزارت خارجہ کی طرف سے واضح بیان آیا کہ اس میں بھارت کا ہاتھ ہے، اور اس موقف کی تائید ان حقائق سے ہوتی ہے جنہیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور دیگر محب وطن قوتیں پہلے دن سے اجاگر کر رہی ہیں۔
بی ایل اے (بلوچستان لبریشن آرمی) کے بھارت سے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ پاکستان بارہا اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی برادری کو یہ باور کروا چکا ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی خود اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ بلوچستان سے کچھ عناصر ان سے رابطے میں ہیں۔ کلبھوشن یادیو جیسے بھارتی جاسوس کی گرفتاری نے بھی یہ ثابت کیا کہ بھارت پاکستان میں تخریب کاری کو سپورٹ کر رہا ہے۔
اب جب وزارت خارجہ واضح طور پر کہہ رہی ہے کہ حالیہ ٹرین حادثے کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کچھ وزراء پی ٹی آئی پر الزام تراشی کیوں کر رہے ہیں؟ کیا ان کا مقصد اصل دشمن کو بے نقاب کرنا ہے یا ایک سیاسی جماعت کو نشانہ بنانا؟
یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب ایک قومی سانحے کو سیاست کی نذر کیا گیا ہو۔ ماضی میں بھی ہم نے دیکھا کہ ہر بڑے حادثے کے بعد ایک مخصوص بیانیہ گھڑ کر سیاسی مخالفین کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حالیہ واقعات میں بھی یہی کچھ دیکھنے کو ملا۔ عطااللہ تارڑ اور دیگر وزراء کو جیسے ہی موقع ملا، انہوں نے اپنی توپوں کا رخ تحریک انصاف کی طرف کر دیا، جبکہ اصل سوال یہ ہونا چاہیے تھا کہ آخر ہمارے دشمن کس طرح اندرونی تخریب کاری کو ہوا دے رہے ہیں؟
یہ معاملہ اس لطیفے سے مختلف نہیں جو پولیس کے حوالے سے مشہور ہے کہ دیگر ممالک کی پولیس مجرموں کو چند گھنٹوں میں پکڑنے کا دعویٰ کرتی ہے، جبکہ پاکستان کی پولیس جرم ہونے سے پہلے ہی پکڑنے کا کہتی ہے۔ یہی حال ہمارے کچھ وزراء کا ہے، جو ہر واقعے کے بعد تیار شدہ بیانیہ لے کر میڈیا کے سامنے آجاتے ہیں، بغیر اس کے کہ تحقیقات مکمل ہوں یا شواہد سامنے آئیں۔
پاکستان کی سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں قومی مفاد کو پس پشت ڈال کر ذاتی اور جماعتی مفادات کو آگے رکھا جاتا ہے۔ 8 فروری 2024 کے انتخابات کے بعد سے ملک میں جو سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا، اس کی بنیادی وجہ عوامی مینڈیٹ کی بے حرمتی ہے۔ پی ٹی آئی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کا یہی مطالبہ ہے کہ عوام کے ووٹ کی عزت کی جائے اور اصل جیتنے والی جماعت کو حکومت بنانے کا موقع دیا جائے۔
عمران خان کو قید میں رکھنا کسی بھی لحاظ سے مسئلے کا حل نہیں۔ اس سے نہ تو تحریک انصاف کی مقبولیت کم ہو رہی ہے اور نہ ہی عوام کی بے چینی ختم ہو رہی ہے۔ بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے سیاسی حالات کو ایک مذاق بنا دیا گیا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں احسن اقبال کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ صرف مسلم لیگ نون کی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی بے عزتی تھی۔ جب ملک کے وزراء عالمی فورمز پر اپنی ساکھ کھو دیں، تو یہ پوری قوم کے لیے باعثِ شرمندگی بن جاتا ہے۔
یہ وقت سیاسی انتقام لینے کا نہیں بلکہ پاکستان کے استحکام پر توجہ دینے کا ہے۔ ملک اس وقت شدید اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے، بین الاقوامی سطح پر ہماری ساکھ کمزور ہو رہی ہے، اور اندرونی طور پر دشمن قوتیں ہمارے خلاف سازشیں کر رہی ہیں۔ ایسے میں حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور تمام سیاسی قوتوں کو چاہیے کہ وہ قومی یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔
پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو دیوار سے لگانے کی کوششیں بند ہونی چاہئیں۔ جو جماعت عوام کی اکثریت کی نمائندہ ہے، اسے عزت اور وقار کے ساتھ قومی دھارے میں شامل کیا جانا چاہیے۔ اختلافات اپنی جگہ، لیکن ملک کو مزید بحران میں دھکیلنے کا عمل بند ہونا چاہیے۔
حالیہ ٹرین حادثے میں بھارت کے ملوث ہونے کا بیان وزارت خارجہ نے دیا، جو ایک انتہائی سنجیدہ الزام ہے اور اس پر عالمی سطح پر آواز اٹھائی جانی چاہیے۔ لیکن اگر اس معاملے کو سیاست کی نذر کر دیا گیا اور اصل دشمن کو نظر انداز کر کے اندرونی لڑائیوں میں الجھ گئے، تو اس کا فائدہ صرف اور صرف بھارت کو ہوگا۔
وقت آ چکا ہے کہ ہم بطور قوم ہوش کے ناخن لیں، سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ملک کی بقا اور استحکام کے لیے ایک مشترکہ موقف اپنائیں۔ تحریک انصاف سمیت تمام محبِ وطن جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ایک ایسی حکمتِ عملی بنائی جائے جو پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکے۔ ورنہ تاریخ ہمیں ایک ایسی قوم کے طور پر یاد رکھے گی جو اندرونی چپقلشوں میں اس قدر الجھی رہی کہ اپنے اصل دشمن کو پہچان نہ سکی۔
