إِآہ حافظ حسین احمد
نَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ
رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ایک ایسی شخصیت ہم سے جدا ہو گئی جو نہ صرف سیاست بلکہ صحافت، مناظرہ، خطابت اور بیباکی میں اپنی مثال آپ تھی۔ حافظ حسین احمد، جو جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی رہنما، سابق سینیٹر اور پاکستان کی دینی و سیاسی تاریخ کا ایک اہم باب تھے، اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ لیکن ان کی گفتگو، ان کا اندازِ سیاست، ان کی کاٹ دار زبان اور ان کی جرات و حق گوئی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
مجھے ان سے ہونے والی کئی ملاقاتیں یاد ہیں، خاص طور پر ایک انٹرویو جو میں نے جدہ میں کیا تھا، غالباً 1998 کی بات ہے ۔ اس گفتگو میں انہوں نے ایک تاریخی جملہ کہا تھا: “اکتوبر میں لوہا لوہے کو کاٹے گا اور لوہار کو ریلیف ملے گی!” یہ الفاظ اس وقت ایک معمّا تھے، لیکن جب اکتوبر میں نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالا، تب ان الفاظ کی گہرائی کا اندازہ ہوا۔ حافظ صاحب کا سیاسی شعور، ان کی معاملہ فہمی اور ان کی دور اندیشی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ وہ ہمیشہ حالات کی نبض پر ہاتھ رکھ کر بات کرتے تھے، ان کی پیشگوئیاں محض الفاظ نہیں ہوتیں، بلکہ آنے والے وقت کی تصویریں ہوتیں۔
حافظ حسین احمد کی گفتگو کا ایک خاص انداز تھا، وہ سیاست کو سنجیدہ مزاح اور گہری فہم کے ساتھ بیان کرتے تھے۔ ان کے جملے صرف طنز نہیں ہوتے تھے، بلکہ حقائق کا آئینہ ہوتے تھے۔ جب وہ ٹیلی ویژن پر آتے، تو ان کے برجستہ جملے سننے والوں کو مسکرانے پر مجبور کر دیتے۔ ان کی گفتگو میں وہ طنز ہوتا تھا جو دل کو لگتا تھا، وہ مزاح ہوتا تھا جو گہری سوچ میں ڈال دیتا تھا، اور وہ فصاحت ہوتی تھی جو مخالفین کو لاجواب کر دیتی تھی۔
ایک بار انہوں نے کہا تھا: “جو شخص ایک سوزوکی میں بیٹھ کر اسلام آباد میں داخل ہو، اور اسمبلی یا سینیٹ سے نکلتے وقت پراڈو میں نظر آئے، اسے روک کر پوچھنا چاہیے کہ یہ دولت کہاں سے آئی؟” یہ الفاظ آج بھی ہماری سیاست کی عکاسی کر رہے ہیں۔ وہ ہمیشہ اس نظام کے خلاف بولتے رہے جس میں سیاست کو ذاتی کاروبار بنا دیا گیا ہے، جہاں قیادت وراثت بن چکی ہے اور جہاں عوام کا استحصال ایک روایت بن چکی ہے۔
حافظ صاحب کا ایک اور مشہور جملہ تھا: “ہر پارٹی میں ایک مشرف ہوتا ہے!” یہ جملہ درحقیقت پاکستانی سیاست کا نچوڑ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ہر سیاسی جماعت میں کچھ عناصر ایسے ہوتے ہیں جو آمرانہ سوچ رکھتے ہیں، جو قیادت کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں، جو اختلافِ رائے کو دبانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ہمیشہ نظریاتی سیاست کے حامی رہے، لیکن پارٹی کے اندرونی معاملات سے خوش نہیں تھے۔
جمعیت علماء اسلام (ف) میں بھی یہی صورتِ حال تھی۔ مفتی محمود کے بعد مولانا فضل الرحمن نے پارٹی کی قیادت سنبھالی، اور پھر قیادت کو اپنے خاندان میں ہی محدود رکھا۔ حافظ صاحب کو ہمیشہ اس بات کا قلق رہا کہ پارٹی میں جمہوریت نہیں، بلکہ شخصیت پرستی کا راج ہے۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں پارٹی میں وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ حقدار تھے۔
حافظ حسین احمد بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ایک دبنگ آواز تھے۔ ان کا اندازِ خطابت، ان کی مدلل گفتگو، اور ان کی سچائی انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھی۔ بلوچستان سے قومی سیاست میں اتنی مضبوط اور دبنگ آوازیں کم ہی ابھری ہیں، لیکن حافظ صاحب نے ہمیشہ اپنی شناخت قائم رکھی۔ وہ بلوچستان کے مسائل پر بھی کھل کر بات کرتے تھے، وہ ملک کے سیاسی منظرنامے پر بھی گہری نظر رکھتے تھے، اور وہ ہر معاملے میں اپنی رائے کا برملا اظہار کرتے تھے۔
وہ سیاست میں اصولوں کے قائل تھے، وہ نہ بکنے والے تھے، نہ جھکنے والے۔ انہیں خریدنے کی کئی بار کوشش کی گئی، لیکن وہ ہمیشہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ یہی ان کی انفرادیت تھی، یہی ان کا کمال تھا، اور یہی ان کا جرم بھی!
پاکستانی سیاست کا ایک المیہ یہ ہے کہ یہاں قیادت وراثت میں چلتی ہے، یہاں اختلاف رائے کو دبایا جاتا ہے، یہاں نئی لیڈرشپ کو ابھرنے نہیں دیا جاتا۔ یہی بات حافظ صاحب بھی کہتے تھے کہ ہمارے ہاں سیکنڈ لیڈرشپ پیدا نہیں ہونے دی جاتی، بلکہ قیادت ایک خاص خاندان میں ہی محدود رکھی جاتی ہے۔
جمعیت علماء اسلام (ف) میں بھی یہی کچھ ہوا۔ مفتی محمود کے بعد مولانا فضل الرحمن آئے، پھر ان کے بھائی، ان کے بیٹے، ان کے قریبی رشتہ دار، سبھی پارٹی کے اہم عہدوں پر قابض ہوتے گئے۔ عام کارکن چاہے جتنا بھی محنت کر لے، وہ کبھی قیادت کے قریب نہیں آ سکتا۔ یہ ایک حقیقت ہے جو حافظ صاحب بارہا بیان کرتے رہے، لیکن ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی۔
یہ سوال آج ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم نے حافظ حسین احمد جیسے نڈر اور مخلص لیڈروں کی قدر کی یا نہیں؟ ہمارے ملک میں وہی سیاستدان کامیاب ہوتا ہے جو چاپلوسی کرے، جو طاقتوروں کے آگے جھکے، جو اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر مفادات کے مطابق چلے۔ جو شخص اپنی راہ الگ بنائے، جو سچ بولے، جو اصولوں پر کھڑا ہو، اسے یا تو خاموش کر دیا جاتا ہے، یا پھر بے بس کر دیا جاتا ہے۔
رمضان کے مبارک مہینے میں حافظ حسین احمد کا انتقال ایک بڑا صدمہ ہے۔ وہ ایک دبنگ سیاستدان تھے، ایک بہترین خطیب تھے، ایک ذہین ڈیبیٹر تھے، اور ایک بے باک صحافیوں کے دوست تھے۔ ان کا جانا نہ صرف جمعیت علماء اسلام کے لیے نقصان ہے، بلکہ پاکستانی سیاست کے لیے بھی ایک بڑا دھچکا ہے۔
لیکن وہ لوگ مرتے نہیں جو نظریات کی دنیا میں زندہ ہوتے ہیں، جو اپنے الفاظ کے ذریعے ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔ حافظ صاحب بھی انہی لوگوں میں سے ایک تھے۔ ان کی یادیں، ان کی باتیں، ان کی تقاریر، ان کے جملے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے، اور ہمیں بھی جرات و استقامت کے ساتھ حق پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!