پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جب بھی کسی نے ایمانداری اور اصولوں کی بات کی ہے، جماعت اسلامی کا نام اس میں ضرور آتا ہے۔ یہ وہ جماعت ہے جو ہمیشہ اپنے اصولوں پر قائم رہی اور کبھی کسی کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے درمیان ہم آہنگی کی بات کی جائے تو یہ ایک تاریخی موقع ہے جس نے پاکستانی سیاست میں ایک نیا رخ دیا ہے۔
افغانستان میں ہمارے کردار کا اثر
افغانستان کی جنگ میں پاکستان کا کردار ہمیشہ سے متنازعہ رہا ہے۔ جب صدر ضیاء الحق نے افغانستان میں روسی مداخلت کے خلاف فیصلہ کیا تھا، تو پاکستان نے نہ صرف اس جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا بلکہ اسلامی جہاد کی حمایت بھی کی۔ اس وقت جماعت اسلامی نے جو موقف اختیار کیا، وہ آج بھی اس فیصلے کے حق میں ہے۔ اس فیصلے کے پیچھے جو جذبہ تھا، وہ پاکستان کے لیے نہ صرف اہمیت کا حامل تھا بلکہ اسلامی دنیا کے لیے بھی ایک پیغام تھا۔ لیکن آج اگر ہم دیکھیں تو افغانستان میں صورتحال بدل چکی ہے۔ افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات میں خرابی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ان کے شہریوں کو کنٹینروں میں بند کر کے امریکہ کے حوالے کیا۔ عبدالسلام ضعیف، جو اس وقت افغانستان کے وزیر خارجہ تھے، کو ننگا کر کے ان کے حوالے کیا گیا۔ عافیت صدیقی کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں تھا۔ مشرف دور میں جتنے لوگ لاپتہ ہوئے اور جنہیں مسنگ پرسنز کے طور پر پیش کیا گیا، وہ آج تک اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
دہشت گردی اور اس کے اثرات
پاکستان کی سیاست میں دہشت گردی ایک سنجیدہ مسئلہ رہا ہے۔ جب ہم اس موضوع پر بات کرتے ہیں تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف دونوں نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں۔ لیکن ایک بات جو ہم ہمیشہ یاد رکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے دور میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی۔ عمران خان نے ہمیشہ اپنے خطاب میں کہا
