قیدی نمبر 804، چیئرمین گوہر اور ڈسپلن کی جنگ

باعث افتخار: انجنیئر افتخار چودھری

ایک وقت تھا جب ایک سابق سیکرٹری اطلاعات، جو پارٹی سے بھاگ نکلے، کہنے لگے کہ “پارٹی کسی کے باپ کی نہیں ہے۔” میں نے جواب میں کہا،
“پارٹی واقعی کسی کے باپ کی نہیں ہے، مگر یہ ضرور یاد رکھو کہ اس پارٹی کا باپ عمران خان ہے۔”
یہ جملہ سننے میں شاید عام سا لگے، مگر اس کے اندر ایک پوری تاریخ، ایک انقلاب، ایک مزاحمت، ایک شخصی استقامت، اور ایک قومی شعور کی گونج موجود ہے۔ اس جملے کے پیچھے وہ آواز ہے جو آج بھی قیدی نمبر 804 کی حیثیت سے جیل میں ہے، لیکن اس کی للکار گلیوں، کوچوں، شہروں، دیہاتوں، نوجوانوں، بزرگوں، عورتوں، طالب علموں اور کارکنوں کے دلوں میں زندہ ہے۔
یہ محض ایک سیاسی جماعت کی بات نہیں، بلکہ ایک تحریک کی بات ہے۔ ایک ایسی تحریک جو صرف کرسی، اقتدار یا پارلیمانی نشستوں کے لیے نہیں نکلی، بلکہ ایک نئے پاکستان کے خواب کے لیے نکلی۔ ایسا پاکستان جو غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہو، جہاں عوام کے فیصلے عوام کریں، جہاں ادارے آئین و قانون کے تابع ہوں، اور جہاں انصاف طاقتور کے دروازے پر نہ جھکے بلکہ ہر در پر مساوی دستک دے۔
عمران خان کا نام محض ایک سیاسی لیڈر کا نہیں، بلکہ ایک ایسے مسیحا کا ہے جس نے غلام ذہنیت کو للکارا۔ وہ لیڈر جو کبھی کسی آمریت کے سامنے نہیں جھکا، جس نے امریکی دباؤ کو مسترد کیا، جس نے سعودی شہزادوں کی فرمائشوں کو رد کیا، جس نے بھارتی جارحیت کے جواب میں جرات مندی سے کہا “ہم آخری گیند تک لڑیں گے”، اور جس نے دنیا کو باور کروایا کہ پاکستانی قوم کوئی بکاؤ مال نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج جب وہ جیل میں ہے، تو اس کی غیر موجودگی میں بھی تحریک انصاف کمزور نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے زیادہ توانا، منظم، اور پختہ ہو گئی ہے۔ یہ وہ پارٹی ہے جس نے عوام کے دلوں میں جگہ بنائی ہے۔ یہ کوئی ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نہیں جو ان کے بعد محدود ہو کر ایک صوبے تک سکڑ گئی۔ عمران خان کے بعد تحریک انصاف کا سفر رکا نہیں، بلکہ نئی جان کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔
عمران خان نے جب بیرسٹر علی گوہر کو پارٹی چیئرمین مقرر کیا، تو یہ کوئی جذباتی فیصلہ نہیں تھا۔ خان کو معلوم تھا کہ تحریک انصاف کو ایسے شخص کی ضرورت ہے جو صرف زبان کا غازی نہ ہو، بلکہ قانونی پیچیدگیوں کو بھی سمجھے، عدالتی نظام سے بھی آشنا ہو، اور تحریک کے بنیادی اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرے۔
گوہر ایک ایسے کارکن ہیں جو سوشل میڈیا کی پیداوار نہیں بلکہ سڑکوں کے مسافر ہیں۔ وکلا تحریک کے دور سے ہی خان کے ساتھ ہیں، اور جب پارٹی کے رہنما جیلوں میں تھے یا روپوشی اختیار کیے ہوئے تھے، تب گوہر علی خان عدالتوں میں پارٹی کا دفاع کر رہے تھے۔
وہ چیئرمین بنے تو کئی چہروں سے نقاب الٹ گئے۔ کئی “سیاسی مشیر” اور “بڑے لیڈر” اندرونی سازشوں میں مصروف ہو گئے۔ کچھ نے جھوٹی کہانیاں گھڑیں، کچھ نے گوہر کی کردار کشی کی، کچھ نے پارٹی کے اندر دھڑے بندی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ مگر سچ یہ ہے کہ جس وقت پارٹی بحران کا شکار تھی، گوہر اور عمر ایوب جیسے لوگوں نے اسے تھاما۔ یہی وہ سپاہی ہیں جنہوں نے مورچوں میں ڈٹ کر قیادت کی حفاظت کی۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پارٹی صرف جلسوں، نعرے بازی اور سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلانے سے چلتی ہے تو وہ سیاست کا مفہوم ہی نہیں سمجھتا۔ پارٹی چلتی ہے نظام سے، ڈسپلن سے، قربانی سے، قیادت پر اعتماد سے۔ اگر ہر شخص اپنی مرضی کرے، خان کے فیصلوں کو چیلنج کرے، چیئرمین کی حیثیت کو متنازع بنائے، تو پھر ایسی جماعت انتشار کا شکار ہو جاتی ہے۔
ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ جس وقت جرنیل سنگھ بھنڈراں والا نے ریاست سے ٹکر لی، تو نتیجہ کیا نکلا؟ اپنی قوم کو ریاست کے خلاف کھڑا کیا، ہزاروں سکھ مارے گئے، خود گولی کا نشانہ بنا، اور اندرا گاندھی کے قتل کے بعد پورے بھارت میں سکھوں کے خلاف جو کچھ ہوا، وہ آج بھی دل دہلا دینے والا باب ہے۔ ہمیں وہ راستہ نہیں اختیار کرنا۔
تحریک انصاف کسی گروہ کا نام نہیں، یہ ایک جماعت ہے۔ اور جماعت میں اگر ہر فرد خود کو “اصل خان” سمجھنے لگے تو پھر کوئی قاعدہ، کوئی اصول باقی نہیں رہتا۔ عمران خان کے فیصلے کو چیلنج کرنا، ان کی منتخب کردہ قیادت کے خلاف بولنا، گویا خود خان کے مشن کے خلاف جانا ہے۔
مجھے بھی پارٹی کے کئی فیصلوں پر تحفظات ہیں۔ 2024 کے انتخابات میں جو کچھ ہوا، اس پر سوالات بھی اٹھے۔ بعض جگہوں پر اہل امیدواروں کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ مگر کیا ہم نے خان کی نیت پر شک کیا؟ نہیں۔ کیونکہ وہ خود کہہ چکا کہ “میں نے ایک ٹکٹ بھی نہیں دیا۔” اگر خان خود جیل سے یہ کہہ رہا ہے کہ فیصلے میرے نہیں تھے، تو ہمیں بھی صبر سے کام لینا ہے۔ خان کو معلوم ہے کہ کون کیا کر رہا ہے۔ اسے وقت دیجیے، وہ انصاف کرے گا۔
اگر آج ہم اپنی قیادت کو تسلیم نہیں کریں گے، اپنے چیئرمین کو چیلنج کریں گے، اپنے سسٹم کو بائی پاس کریں گے، تو دشمن خوش ہو گا۔ وہی دشمن جو عمران خان کو جھکانا چاہتا تھا، وہی دشمن جو تحریک انصاف کو تقسیم کرنا چاہتا ہے، وہی طاقتیں جو اس تحریک کے نظریے سے خائف ہیں۔
ہمیں خان کا مشن آگے لے کر جانا ہے۔ اور یہ تب ہی ممکن ہو گا جب ہم متحد ہوں گے، ایک صف میں کھڑے ہوں گے، اور ہر شخص اپنی رائے کو اجتماعی فیصلے کے تابع کرے گا۔ کوئی بھی لیڈر چاہے جتنا بھی مقبول ہو، اگر وہ پارٹی کے نظم کو نہ مانے، تو اس کی مقبولیت پارٹی کی بربادی بن جاتی ہے۔
اسلامی تاریخ میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں۔ خلافت راشدہ کے بعد جب اختلافات بڑھے، اور کچھ افراد نے نظم کی بجائے اپنی رائے کو ترجیح دی، تو مسلم امہ میں جو انتشار آیا، اس کے اثرات آج تک قائم ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان غلطیوں سے سبق سیکھیں۔
یہ وقت ہے فہم و فراست کا۔ آج ضرورت ہے کہ ہم انا، جذبات، اور ذاتی مفادات کو ایک طرف رکھ کر صرف ایک بات کو سامنے رکھیں: عمران خان کی قیادت، اس کا مشن، اور تحریک انصاف کا نظم۔ خان نے جو فیصلہ کیا ہے، وہ صرف وقتی سیاسی مجبوری نہیں بلکہ ایک حکمت عملی کا حصہ ہے۔ ہمیں اس فیصلے کے پیچھے کی سوچ کو سمجھنا ہے۔
یہ ڈسپلن کی جنگ ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جس میں میدان میں جیت صرف اس کو ملے گی جو نظم، قیادت اور ٹیم ورک کا قائل ہو۔ اگر ہر کوئی صرف اپنی بات کرے، اپنی اہمیت کو اجاگر کرے، اور پارٹی کے فیصلوں کو چیلنج کرے، تو یہ کارواں کہیں نہیں پہنچے گا۔
خان کو ہم نے ایک لیڈر نہیں، ایک امید، ایک فکر، ایک تحریک کے طور پر قبول کیا ہے۔ وہ اس وقت جیل میں ہے۔ ہم آزاد ہیں۔ اس کی آزادی کی جدوجہد ہم نے کرنی ہے۔ مگر اگر ہم خود ہی اس کے منتخب کردہ چیئرمین کو نہیں مانتے، تو پھر ہم کس منہ سے “ریاست مدینہ” یا “نیا پاکستان” کی بات کریں گے؟
کارکنو! تاریخ تمہیں دیکھ رہی ہے۔ آج تم جس راستے کا انتخاب کرو گے، وہ تمہاری پہچان بنے گا۔

اپنا تبصرہ لکھیں