کیا ہم پیٹ کے غلام ہیں ؟ باعث افتخار انجینئر افتخار چودھری

کون سی بڑی بات ہے کہ آج انسان نے کام کیا اور کھانا کھا لیا، اور کل کام کیا اور کھانا کھا لیا، اور ساری زندگی یہی کرتا رہا؟ کام کرنا اور کھانا۔ اگر کچھ وقت بچا تو بچے پیدا کیے، جن سے دل بہلایا، اور جب وہ بڑے ہو گئے، تو ان پر غصہ اتارا کہ نوکری کرو، پیسے کماؤ۔ یہ زندگی ہے یا قفس؟ کیا انسان صرف پیٹ کا غلام ہے؟ کیا ہماری پیدائش کا مقصد یہی دہراؤ، یہی چکر، یہی مشینی انداز ہے؟
میکسم گورکی کا یہ سوال فقط ایک جملہ نہیں، بلکہ انسانی سماج پر سوالیہ نشان ہے۔ ایک ایسا سوال جو ہر اس ذہن کو جھنجھوڑ دیتا ہے جو سوچنے کی جرأت رکھتا ہے۔ کیا واقعی ہم زندگی کو اس کی اصل معراج تک لے جا پائے ہیں؟ یا ہم صرف نسل در نسل غلامی کے نئے روپ اختیار کرتے جا رہے ہیں؟ کبھی موروثی آمریت، کبھی سرمایہ دارانہ نظام، اور کبھی مذہب کے نام پر بنے قوانین ہمیں ایسی زنجیروں میں جکڑ دیتے ہیں، جنہیں ہم دیکھ کر بھی انکاری ہو جاتے ہیں۔
ایسے میں کچھ لوگ پیدا ہوتے ہیں، جو اس زنجیر کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو صرف اپنی بھوک مٹانے کے لئے زندہ نہیں رہتے بلکہ انسانیت کو آزادی دلانے کے لیے جیتے ہیں۔ نلسن منڈیلا اور عمران خان ان ہی لوگوں میں سے ہیں۔ دونوں مختلف خطوں، مختلف نظاموں اور مختلف وقتوں میں پیدا ہوئے، مگر دونوں کی روح میں ایک ہی چراغ جل رہا تھا — انصاف، خودداری، آزادی۔
جنوبی افریقہ کا ایک کالا نوجوان، جس نے سفید فام حکومت کے خلاف آواز بلند کی، صرف اس لئے کہ وہ جانتا تھا انسان کو رنگ، نسل یا زبان کی بنیاد پر بانٹنا ظلم ہے۔ نلسن منڈیلا نے صرف اپنا مستقبل داؤ پر نہیں لگایا، بلکہ اپنی آزادی، اپنے خاندان، حتیٰ کہ اپنی جوانی کو بھی قربان کر دیا۔ 27 سال قید تنہائی، وہ بھی ایک ایسے قیدی کی حیثیت سے جو دشمنِ ریاست قرار دیا جا چکا تھا۔
ان 27 برسوں میں منڈیلا جسمانی طور پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہا، مگر اس کا ذہن، اس کی سوچ اور اس کا ضمیر آزاد رہے۔ وہ جیل کی کال کوٹھری میں بھی آزادی کا خواب دیکھتا رہا۔ اسے نہ عیش کی طلب تھی نہ اقتدار کی ہوس۔ اس کا ایک ہی خواب تھا: ایک ایسا جنوبی افریقہ جہاں ہر انسان برابر ہو، ہر زبان کو عزت ملے، اور ہر بچہ رنگ کی بنیاد پر نہ پرکھا جائے۔
جب وہ قید سے باہر آیا، تو انتقام کی بجائے معافی کا علم بلند کیا۔ اس نے سفید فاموں کو بھی گلے لگایا، جو اس کے جیل کے دنوں کے ذمہ دار تھے۔ اس کی عظمت یہ نہیں تھی کہ وہ صدر بن گیا، بلکہ یہ تھی کہ وہ صدر بننے کے باوجود دشمنوں کو معاف کر گیا۔ یہ ہوتی ہے اصل آزادی۔ یہی انسان کی معراج ہے۔
عمران خان کی کہانی مختلف تھی، مگر جذبہ وہی۔ ایک کھلاڑی جس نے قوم کو ورلڈ کپ جتوایا، وہ چاہتا تو باقی زندگی شہرت، آرام اور دولت میں گزار سکتا تھا۔ مگر اس نے وہ راستہ چنا جس میں پتھر بھی تھے، کانٹے بھی، مگر ایک امید بھی تھی۔ اس نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور کہا: “میں ایک نیا پاکستان بنانا چاہتا ہوں”۔ لوگ ہنسے، مذاق اُڑایا، اور بہت سوں نے کہا کہ یہ خواب ہے۔ لیکن خواب دیکھنے والا باز نہ آیا۔
بائیس سال تک جدوجہد کی۔ کبھی ایک سیٹ، کبھی کوئی نہیں، کبھی تنقید، کبھی سازش۔ مگر اس نے ہار نہ مانی۔ وہ چاہتا تھا کہ پاکستان ایک ایسا ملک بنے جہاں قانون سب کے لیے برابر ہو، جہاں پولیس طاقتور کی لونڈی نہ ہو، اور جہاں عام آدمی کو انصاف ملے۔
جب وہ اقتدار میں آیا تو اس نے ہر وہ کوشش کی جو ایک خوددار قوم کی تعمیر میں لازم ہوتی ہے۔ ریاست مدینہ کا تصور پیش کیا، اقوامِ متحدہ میں ناموسِ رسالت پر بولنے والے پہلے پاکستانی لیڈر بنے، اور دنیا کے طاقتور ممالک کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی۔ اس نے نوجوانوں کو بتایا کہ غلامی صرف جسم کی نہیں ہوتی، سوچ کی بھی ہوتی ہے۔ وہ بار بار کہتا رہا: “جو قوم اپنی خودی بیچ دے، وہ کبھی عظیم نہیں بن سکتی۔”
سوال یہ ہے کہ نلسن منڈیلا اور عمران خان جیسے لوگ کیوں یاد رکھے جاتے ہیں؟ وجہ یہ ہے کہ انہوں نے زندگی کو صرف کھانے، کمانے اور جینے تک محدود نہیں رکھا۔ انہوں نے اپنے وجود کو ایک مشن بنا دیا۔ ان کا وجود دوسرے انسانوں کی آزادی، شعور، اور وقار کے لیے وقف ہو گیا۔ انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، اور زندگی کی ہر آزمائش کو قبول کیا۔
جب کوئی شخص اپنی زندگی کو صرف اپنی ذات تک محدود کر دیتا ہے، تو وہ سماج کا حصہ تو بن جاتا ہے، مگر تاریخ کا نہیں۔ لیکن جو لوگ خود کو ایک نظریہ، ایک مشن یا ایک تحریک کے لیے وقف کر دیتے ہیں، وہ نہ صرف زندہ رہتے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو راستہ بھی دکھاتے ہیں۔
آج کا انسان پھر سے ویسی ہی زنجیروں میں گرفتار ہے جن کے خلاف گورکی نے قلم اٹھایا تھا۔ آج کا انسان بھی صبح سے شام تک صرف روٹی کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ ماں باپ اپنے بچوں کو تعلیم اس لئے نہیں دلواتے کہ وہ اچھے انسان بنیں، بلکہ اس لئے کہ وہ اچھی نوکری حاصل کریں۔ اچھا انسان بننے کا خواب کہیں کھو گیا ہے۔
آج کے والدین اپنے بچوں کو کہتے ہیں، “جلدی سے بڑے ہو جاؤ، نوکری کرو، پیسے کماؤ، گھر چلاؤ”۔ جیسے زندگی صرف ایک مالی اکائی بن چکی ہو۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے بچے روبوٹ بن چکے ہیں، جنہیں نہ محبت کا پتہ ہے نہ مقصد کا۔
مگر کیا یہ دائرہ توڑا نہیں جا سکتا؟ بالکل جا سکتا ہے۔ شرط صرف ایک ہے: سوچ کو آزاد کرنا۔ غلامی صرف زنجیروں میں نہیں ہوتی، وہ نصاب میں بھی ہوتی ہے، خبروں میں بھی، نصیحتوں میں بھی اور خوابوں میں بھی۔ ہمیں اپنے بچوں کو صرف پیسہ کمانے کے لئے تیار نہ کریں، بلکہ انہیں سوال کرنے، سوچنے اور بولنے کا حوصلہ دیں۔
ہمارے معاشرے کو نلسن منڈیلا اور عمران خان جیسے سوچنے والے انسانوں کی ضرورت ہے۔ جو اقتدار کی بجائے اقدار کو اہمیت دیں۔ جو جھکنے کی بجائے جُھنجھوڑنے کی ہمت رکھتے ہوں۔ سچی بات ہے ہم نے اپنے بچوں کو بھی صرف پیسہ کمانے کی مشین بنا دی ہے اور پوتوں کو بھی اسی راستے پر لگایا ہے گھر میں جب بیٹھے ہوں تو یہ بات کرتے ہیں کہ دوسروں کے بچے جائیں سڑکوں پر مظاہرہ کریں مار کھائیں لیکن ہمارا بچہ نہ جائے
تو پھر کیوں قائد اعظم نے منٹو پارک میں 1940 میں برصغیر پاک و ان کے مسلمانوں کو اکٹھا کیا تھا کیوں چودھری رحمت علی نے ایک الگ پاکستان کا مطالبہ کیا تھا کیوں مولانا مودودی نے اسلامی انقلاب کی کوشش کی تھی کیوں قادی انی وں کے خلاف 1974 میں اور اس سے پہلے لوگوں نے قربانیاں دی تھیں ساری دنیا اور سارے لوگ یہ چاہتے ہیں قربانی کوئی اور دے جیل میں کوئی اور جائے
ہوا ہی ایسی چلی ہے ہر ایک سوچتا ہے
تمام شہر جلے ایک میرا گھر نہ جلے