بھینس کو بے گھر نہ کرو۔ باعثِ افتخار انجنیئر افتخار چودھری
کہتے ہیں صاف ستھرا پنجاب آ گیا ہے۔ گلیاں صاف، نالے صاف، دیواریں صاف، اور اب تو ارادے بھی صاف ہو چکے ہیں۔ صفائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب انسان کے بعد اگر کسی کو نکالنے کا ارادہ ہے تو وہ بھینس ہے! جی ہاں، وہی بھینس جس نے گوجرانوالہ کو گوجرانوالہ بنایا، جس کے دودھ سے پہلوانی پنپا، اور جس کی گُرگُراہٹ سے ہر صبح کا آغاز ہوتا تھا۔
پنجاب حکومت کے منصوبے کے مطابق اب شہری علاقوں سے بھینسیں نکالی جا رہی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے بھینسوں نے کوئی سنگین جرم کر دیا ہو۔ جیسے وہ دودھ نہیں دیتیں، بم بناتی ہوں! اور گوالا… گوالا تو اب ناپسندیدہ مخلوق ٹھہرا۔ صاف ستھرا پنجاب کا خواب شاید وہ ہے جس میں پہلوان نیڈو پی کے پروٹین بار چباتے ہوں اور دیسی گھی کے بجائے کینولا آئل میں چنے بھونتے ہوں۔
ترجمان فلاحِ گُجراں، محترم واجد امتیاز گجر نے کہا ہے کہ بھینسوں کے اخراج سے شہر صاف ہو گا، سڑکیں کھلی ہوں گی اور گند نہیں پھیلے گا۔ واہ جی واہ! گندگی اگر صرف بھینس پھیلاتی ہے تو پھر جو دو نمبری پھیلاتے ہیں، ان کے لیے بھی کوئی اسکیم ہے؟ وہ فیکٹریاں جو نالوں میں زہر اُگلتی ہیں، ان پر کوئی نوٹس ہے؟ وہ جو جعلی دودھ بنا کر بچوں کو بیمار کرتے ہیں، ان پر کوئی ایف آئی آر ہے؟
گوجرانوالہ صرف شہر نہیں، یہ پہچان ہے۔ یہاں کا بچہ بچہ لسی سے نہایا ہوا ہوتا ہے۔ یہاں کی ماؤں نے خالص دودھ پلا کر ایسے جوان پیدا کیے ہیں جنہوں نے اولمپکس میں جھنڈے گاڑے۔ نوح بٹ کی چھاتی پر صرف سونے کا تمغہ نہیں، گوجرانوالہ کی مٹی کا حق ہے۔ انعام پہلوان ہو یا یونس پہلوان، کسی نے نیڈو نہیں پیا۔ وہ تو بھینس کا دودھ، دیسی گھی، مکھن، اور ماں کے ہاتھ کے پراٹھوں پر پلے تھے۔
ایسے میں بزرگ سیاست دان اقبال گجر کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ اقبال گجر وہ شخصیت ہیں جنہوں نے گوجرانوالہ کی سیاست میں ہمیشہ مقامی لوگوں کی آواز بلند کی۔ بھینس، گوالا، پہلوان، دکاندار، مزدور—سب ان کی سیاست کا حصہ تھے۔ ان کے پاس بیٹھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ وہ شہر کے ہر طبقے کے دکھ درد سے واقف ہیں۔ آج اگر وہ گوالوں کے حق میں آواز بلند کریں، تو یقین جانیے نہ صرف شہر سنے گا بلکہ اسمبلی بھی سنے گی۔
اسی طرح ایم پی اے عبدالرحمن گجر، جن کے محلے آج بھی پہلوانوں کے قصے سناتے ہیں، ان کے لیے بھی یہ وقت خاموشی کا نہیں۔ وہ ووٹ انہی گلیوں سے لے کر آئے تھے جہاں آج بھینسیں دھکے کھا رہی ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ یہی گوالے ان کے جلسوں میں نعرے لگاتے تھے؟ وہ دودھ جو جلسے کے بعد قائدین کو پیش کیا جاتا تھا، وہ اسی بھینس کا تھا جسے اب شہر بدر کیا جا رہا ہے۔
اور جناب خرم دستگیر خان! وہ خود پہلوانی روایت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا خاندان گوجرانوالہ کی ثقافت، علم، سیاست، اور کشتی کا ترجمان رہا ہے۔ اگر وہ آج گوالوں کے ساتھ نہ کھڑے ہوئے تو کل گوجرانوالہ کا مورخ لکھے گا کہ “جس دن بھینسیں نکالی گئیں، خرم صاحب خاموش تھے۔”بھولی گجر نظر نہیں آیے
ہمیں یاد ہے کہ کیسے پہلوان لسی کا جگ سر پر رکھ کر اکھاڑے جاتے تھے۔ گلیوں میں صبح صبح دودھ لے کر چلتے گوالے صرف دودھ نہیں بانٹتے تھے، وہ زندگی بانٹتے تھے۔ آج انہیں نکال کر ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ شہر صاف ہو گیا؟ شہر صرف سیمنٹ، اینٹ اور کوڑے کی صفائی سے صاف نہیں ہوتا، وہ تب صاف ہوتا ہے جب نیت صاف ہو، اور نظر میں اپنے لوگوں کی عزت ہو۔
یاد رکھو، گوجرانوالہ کی اصل طاقت اس کا دودھ، اس کے پہلوان، اور اس کی محنت کش قوم ہے۔ اگر آپ بھینسوں کو نکال کر، گوالوں کو ہٹا کر یہ سوچتے ہیں کہ ترقی آ جائے گی، تو معاف کیجیے گا، یہ ترقی نہیں، خودکشی ہے۔ اگر آج ہم نے اپنے کلچر، اپنی پہچان، اپنے دودھ، اپنے گوالے، اپنے اکھاڑے، اور اپنی پہلوانی کو دفن کر دیا، تو کل صرف بینر رہ جائیں گے جن پر لکھا ہو گا:
“پہلوانوں کا شہر تھا، ڈبے نے نگل لیا!”
لہٰذا ہماری التجا ہے، مطالبہ نہیں، فریاد ہے:
ڈبے کا دودھ اپنی جگہ، خالص دودھ اپنی جگہ!
پلاسٹک کا گلاس اپنی جگہ، مٹی کا کُولڑ اپنی جگہ!
شہر کو صاف ضرور کریں، مگر اسے بے ذائقہ نہ بنائیں!
گوالا کالونی بنائیں، پہچان بچائیں، اور بھینس کو شہر سے نہ نکالیں بلکہ دل سے لگائیں!
