سر اُٹھا کے جینے کی قیمت: ایک تاریخی جائزہ


تحریر: انجنیئر افتخار چودھری

“سر اُٹھا کے جینے کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، جبکہ سر جھکا کے جینے کا معاوضہ ملتا ہے۔” یہ جملہ بظاہر ایک سادہ سا فقرہ معلوم ہوتا ہے، لیکن اس کے اندر صدیوں کی انسانی جدوجہد، قربانی، حوصلے اور بغاوت کی پوری داستان چھپی ہوئی ہے۔ چی گویرا کا یہ قول صرف ایک انقلابی کی سوچ نہیں بلکہ ہر اس شخص کا نعرہ ہے جس نے ظلم کے خلاف آواز بلند کی، جبر کے سامنے جھکنے سے انکار کیا اور اصولوں پر ڈٹ جانے کی قیمت ادا کی۔
تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں جو بھی بڑی تبدیلیاں آئیں، وہ انہی لوگوں کے ذریعے آئیں جنہوں نے “سر اُٹھا کے جینے” کو اپنا شعار بنایا۔ ان کے سامنے دنیاوی مفادات، عہدے، دولت یا شہرت کی چمک دمک نہیں تھی بلکہ ایک نظریہ، ایک مقصد اور انسانیت کی بھلائی کا جذبہ تھا۔ لیکن ان سب کو اس راستے میں ناقابلِ بیان اذیتیں، قید و بند کی صعوبتیں، جلا وطنی، سولی، زہر کا پیالہ یا گولی کا سامنا کرنا پڑا۔
تاریخِ اسلام کی سب سے روشن مثال حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ہے، جنہوں نے یزیدی نظام کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا۔ آپ چاہتے تو آسانی سے مدینہ میں پر سکون زندگی گزار سکتے تھے، یزید کی بیعت کرکے دنیاوی عزت و وقار حاصل کر سکتے تھے، لیکن آپ نے “سر اُٹھا کے جینے” کو ترجیح دی۔ کربلا کی میدان میں اپنے خاندان اور جانثار ساتھیوں کی قربانی دے کر تاریخ کا ایک ایسا باب رقم کیا جو ہمیشہ مظلوم کی حمایت اور ظالم کے خلاف کھڑے ہونے کی علامت رہے گا۔
یونان کے مشہور فلسفی سقراط کا مقدمہ اس بات کی علامت ہے کہ سچ بولنے اور لوگوں کو سوچنے پر اُکسانے کی کیا قیمت چکانی پڑتی ہے۔ سقراط پر الزام تھا کہ وہ نوجوانوں کو گمراہ کرتا ہے اور دیوتاؤں کے خلاف بولتا ہے۔ عدالت نے اسے زہر کا پیالہ پینے کا حکم دیا۔ وہ چاہتا تو معافی مانگ کر بچ سکتا تھا، لیکن اُس نے اپنے نظریے سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا۔ یوں اس نے “سر اُٹھا کے جینے” کی قیمت اپنی جان دے کر ادا کی۔
چی گویرا خود بھی اس قول کی جیتی جاگتی تصویر تھا۔ ایک تعلیم یافتہ ڈاکٹر، جو آرام دہ زندگی گزار سکتا تھا، لیکن اس نے دنیا بھر کے مظلوموں کے لیے اپنی زندگی وقف کی۔ کیوبا کی انقلابی تحریک میں اہم کردار ادا کیا، بولیویا میں ظلم کے خلاف لڑتے ہوئے جان دی۔ وہ جانتا تھا کہ اس راہ پر موت یقینی ہے، لیکن اس نے سر جھکانے سے انکار کیا۔ اس کی موت کے بعد وہ ایک عالمی انقلابی علامت بن گیا۔
جنوبی افریقہ میں رنگ و نسل کی بنیاد پر قائم نسلی امتیاز کے خلاف نیلسن منڈیلا نے آواز اٹھائی۔ اس کی قیمت اسے 27 سال قید کی صورت میں ادا کرنی پڑی۔ وہ چاہتا تو ابتدائی مرحلے پر حکومت سے مفاہمت کر کے خود کو محفوظ کر سکتا تھا، لیکن اس نے اصولوں پر سمجھوتہ نہ کیا۔ جیل سے نکل کر وہ صرف جنوبی افریقہ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں امن، انصاف اور حوصلے کی علامت بن گیا۔
برصغیر کی تحریکِ آزادی کے رہنما مولانا محمد علی جوہر نے بھی سر اُٹھا کے جینے کو ترجیح دی۔ لندن میں گول میز کانفرنس کے دوران انہوں نے برطانوی حکومت کو صاف الفاظ میں کہا کہ “میں اپنی قوم کی آزادی لیے بغیر واپس نہیں جاؤں گا، اگر جاؤں گا تو کفن میں لپٹ کر جاؤں گا۔” واقعی وہ واپس نہ گئے، وہیں وفات پا گئے۔ ان کے الفاظ آج بھی دلوں کو جھنجھوڑ دیتے ہیں۔
بھگت سنگھ کی جرات بھی اسی فلسفے کا عکس تھی۔ انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے اس نے کھل کر کہا کہ “انقلاب زندہ باد”۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے نظریات اور اقدام اسے پھانسی کے پھندے تک لے جائیں گے، لیکن اس نے اپنی راہ نہ بدلی۔ اس کی پھانسی کے بعد وہ لاکھوں دلوں کا ہیرو بن گیا۔
علامہ اقبال نے جو خواب دیکھا اور قائداعظم نے جسے عملی صورت دی، وہ بھی اسی اصول پر مبنی تھا۔ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کو ان کی پہچان، خودداری اور عظمت کا شعور دیا۔ قائداعظم نے بے شمار دباؤ کے باوجود اصولوں پر سمجھوتہ نہ کیا۔ نہرو، گاندھی اور برطانوی حکمرانوں نے بارہا انہیں جھکانے کی کوشش کی، لیکن وہ ڈٹ گئے۔ پاکستان کا قیام اسی “سر اُٹھا کے جینے” کا ثمر ہے۔
چودھری رحمت علی کا ذکر کیے بغیر برصغیر کی آزادی کی داستان نامکمل رہتی ہے۔ وہ پہلا شخص تھا جس نے “پاکستان” کا نام تجویز کیا اور برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا تصور پیش کیا۔ اُس وقت نہ صرف برطانوی حکمرانوں نے بلکہ بہت سے مسلمان رہنماؤں نے بھی اس کے تصور کو ناقابلِ عمل قرار دیا۔ لیکن رحمت علی اپنے نظریے پر قائم رہا، اسے مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا، یہاں تک کہ قیامِ پاکستان کے بعد بھی اسے نظر انداز کیا گیا اور وہ جلاوطنی میں دنیا سے رخصت ہوا۔ اُس نے “سر اُٹھا کے جینے” کی قیمت تنہائی اور محرومی کی صورت میں چکائی، لیکن آج تاریخ اس کے نظریے کو سچ ثابت کر چکی ہے۔
تاریخ میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو وقتی فائدے، جان بچانے یا مراعات حاصل کرنے کے لیے اصولوں سے ہٹ گئے۔ ان کے نام شاید وقتی طور پر شہ سرخیوں میں آئے، لیکن تاریخ نے انہیں بے توقیر کر دیا۔ ایسے لوگ اکثر ظالموں کے دستِ راست بنے، لیکن جیسے ہی ان کی ضرورت ختم ہوئی، وہ بھلا دیے گئے۔ ان کی زندگی میں سکون نہ رہا اور موت کے بعد ان کا کوئی نام لیوا نہ رہا۔
سر جھکا کے جینے والے بظاہر کامیاب اور محفوظ نظر آتے ہیں، لیکن اندر سے ٹوٹے ہوتے ہیں۔ وہ ضمیر کی خلش میں مبتلا رہتے ہیں، ان کے چہرے پر کبھی وقار نہیں ہوتا۔ برعکس اس کے، سر اُٹھا کے جینے والے اگرچہ سختیاں سہتے ہیں، لیکن ان کا ضمیر مطمئن ہوتا ہے، ان کے چہروں پر نور اور کردار میں وقار ہوتا ہے۔
یہ کالم ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم کون سا راستہ چنیں؟ کیا ہم وقتی مفادات کی خاطر اپنی خودداری، اپنے نظریات اور حق پرستی کو بیچ دیں؟ یا مشکلات برداشت کر کے بھی سر اُٹھا کر جینے کا حوصلہ رکھیں؟ ہر فرد، ہر قوم اور ہر نسل کو یہ فیصلہ خود کرنا ہوتا ہے۔
جب ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آج بھی سچ بولنے والوں کو دبایا جاتا ہے، حق گوئی کی سزا دی جاتی ہے، لیکن یہی لوگ آنے والے کل کے ہیرو بنتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو یہ سبق دیں کہ عظمت قربانی مانگتی ہے، عزت اصولوں پر کھڑے ہونے سے ملتی ہے اور سر اُٹھا کے جینے کی قیمت ضرور ہے، لیکن اس کا معاوضہ تاریخ دیتی ہے – عزت کی صورت میں، محبت کی صورت میں اور دوام کی صورت میں۔