محمد اعجاز الحق
آج مزدوروں کا عالمی دن ہے‘ دنیا بھر کے مزدور اپنے حقوق کے لیے ریلیاں نکالتے ہیں‘ لیبر ڈے ان مزدوروں کی یاد میں منایا جاتا ہے جنہوں نے امریکہ کے شہر شکاگو میں یکم مئی 1886ئکو اپنے اوقات کار 16 گھنٹے سے 8 گھنٹے کرانے کے لیے پر امن احتجاجی مظاہرہ کیا جس پر پولیس نے گولی چلا دی‘ مزدوروں کے ہاتھوں میں سفید پرچم تھے جو امن کی علامت تھیپ مزدور ہر سال یہ دن مناتے ہیں‘ تاہم دین رحمت کا اپنا ایک پیغام ہے‘ نبی رحمتﷺ کا پیغام ہے کہ مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے اس کی اجرت دو‘ یہی اسلام کا آفاقی پیغام ہے ہر مزدور کے حوالے سے‘‘ ایک بار نبی رحمت ﷺ کے پاس ایک شخص آیا‘ اور کچھ مالی امداد کی درخواست کی‘ نبی رحمت ﷺ نے اسے کلہاڑا لے کر دیا کہ جاؤلکڑیاں کاٹو اور مزدوری کرکے بیچو‘ نبی ﷺ کی اس ہدایت میں برکت اور ایک سبق بھی تھا‘ کہ دین ہلال طریقے سے ہاتھ کی کمائی کو جائز سمجھتا ہے‘ کچھ عرصے کے بعد وہ شخص دوبارہ حاضر ہوا‘ اور خوشی سے بتایا کہ اس محنت کے نتیجے میں اب اسکے پاس بہت مال اسباب آگیا ہے‘ یہ اس کی محنت اور ہاتھ کی کمائی کا اثر اور اللہ کا کرم تھا‘ہم ایک اسلامی نظریاتی مملکت ہیں‘ آئینی اعتبار سے اسلامی جمہوریہ ہیں‘ مگر ہمارے حکمرانوں نے کیا کبھی سوچا کہ اس ملک میں قرآن و سنت کے مطابق ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جائے جہاں ہر شخص کو اس کی قابلیت کے مطابق روزگار بھی میسر ہو‘ عدل اور انصاف بھی‘ اور روزگار کا تحفظ بھی‘ بہترین معاشی نظام یہ ہے کہ جہاں آجر اور اجیر دونوں اللہ کا خوف دل میں رکھ کر کام کریں‘ ہمارے ملک میں انتہاء درجے کی نا انصافی اور روزگار کے لیے جائز مواقع نہ ملنے کے باعث معاشرے کو جرائم پیشہ افراد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے‘حکیم الامت قومی شاعر علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں مزدوروں اور محنت کشوں کی حالت زار کے بارے میں کہا تھا-
مکر و فن کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
دست دولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی
اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکوٰۃ
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
علامہ اقبال کا فکر اور فلسفہ درست ثابت ہوا اور آج نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پاکستان کے مزدور اور کسان بھی لاوارث ہو چکے ہیں ان کی کوئی آواز نہیں ہے‘پاکستان کے جاگیردار اور سرمایہ دار بڑی ڈھٹائی کے ساتھ محنت کشوں کا استحصال کر رہے ہیں‘ انہیں عدل و انصاف میسر نہیں ہے‘ محنت کش ان ظالم اور سنگ دل سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں‘ ملک کے سرمایہ داروں کا حال یہ ہے کہ ہر سال کم و بیش ٹیکس چوری کرتے ہیں ابھی بھی درجنوں کیسز عدالتوں میں زیر التواء ہیں پاکستان دنیا کا ایسا ملک ہے جس میں حکمران اشرافیہ بھی ٹیکس میں ہیرا پھیری کرتی ہے‘ہر سال جب گندم کی فصل تیار ہوتی ہے تو حکومت اور ساہو کار دونوں مل کر محنت کشوں کسانوں کو بلیک میل کرتے ہیں ان کا استحصال کرتے ہیں اور ان کو گندم کی پوری قیمت ادا نہیں کی جاتی‘پھر کسان احتجاج کرتا ہے‘ اسے گرفتار کیا جاتا ہے اور مقدمے بنائے جاتے ہیں پاکستان کے آئین میں اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ حکومت ہر شہری کو استحصال سے بچائے گی مگر حقائق یہ ہیں کہ شہریوں کو جو بنیادی حقوق دیے گئے تھے وہ بے دردی کے ساتھ پامال کیے جا رہے ہیں‘آج مزدوروں کا عالمی دن ہے یہ دن ان مزدوروں کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے مزدور طبقے کے حقوق کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیں کہ پولیس نے سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے پرامن مزدوروں پر گولی چلا ئی تھی‘ سینکڑوں مزدور ہلاک ہو گئے جبکہ چار مزدور راہنماؤں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ان مزدوروں کا آخری پیغام یہی تھا کہ سرمایہ دارو تم ہمیں مار سکتے ہو مگر ہماری تحریک کو ختم نہیں کر سکتے شکاگو سے جنم لینے والی مزدور تحریک آج تک پوری دنیا میں چل رہی ہے‘ پاکستان میں مزدور تحریک ہمیشہ کمزور رہی ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مزدوروں نے کبھی اتحاد کا مظاہرہ نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ حکومت اور سرمایہ داروں نے مزدوروں کے آپس کے انتشار سے ہمیشہ فائدہ اٹھایا‘ ذوالفقار علی بھٹو نے مزدوروں کے حقوق کے لیے لیبر پالیسی دی تھی جس میں بعد میں جنرل محمد ضیاء الحق شہید کے دور میں مذید بہتری لائی گئی‘ جم و بیش ہر حکومت نے اپنی حد تک ملک کے مزدوروں کے روزگار کے تحفظ کے لیے ضرور کچھ نہ کچھ کیا‘بھٹو دور میں مزدوروں اور محنت کشوں کے لیے پہلی جامع لیبر پالیسی لائی گئی تھی‘ مگر جنرل محمد ضیاء الحق شہید کے دور میں اسے مذید بہتر اور جامع بنایا گیا۔جنرل محمد ضیاء الحق شہید نے مزدوروں کی بیواؤں کے لیے قرضوں کے سود معاف کیے‘ گھر تعمیر کرنے کے لیے آسان قرض دیا‘ افسوس آج ملک میں قانون ہے مگر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ پاکستان کے مزدور اور محنت کش عوام لاوارث ہو چکے ہیں‘ پاکستان کے مزدوروں اور محنت کشوں کو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے‘محسن انسانیت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مزدوروں سے بڑی محبت کرتے تھے۔ ایک روز ایک مزدور آپ صلی اللہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا‘ اور اس نے بنی پاک ﷺ سے مصافحہ کیا‘ اس کے کپڑے میلے کچیلے تھے اور ہاتھ سخت‘ اس کے سخت کھردرے ہاتھ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کیا کام کرتے ہو اس نے کہا پہاڑ کی چٹان کاٹ کر روزی کماتا ہوں‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس محنت کش کے ہاتھ چوم لیے‘ بنی اکرم ﷺ نے کہا کہ ہاتھ سے محنت کرنے والے ہاتھ سخت ہوجائیں تو وہ ہاتھ اس قابل ہیں کہ انہیں نوبت بوسہ دے‘ اور نبی نے اس مزدور کا ہاتھ چوم لیا‘‘قران سرمایہ داری اور جاگیرداری کی اجازت نہیں دیتا اس کے باوجود اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا شمار دنیا کے امیر ترین افراد میں ہوتا ہے دولت کی سنگ دلانا غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے معاشی اجارہ داریاں پیدا ہو چکی ہیں‘قران پاک کی سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 34 اور 35 میں اللہ تعالیٰ نے دوٹوک اور واضح الفاظ میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو انتباہ کیا ہے‘ ”جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں (سرمایہ دار جاگیر دار)اور اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خبر سنا دو اس دن جب ان کے اس سونے اور چاندی کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیوں کو داغاجائے گا۔ یہ ہے جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تو اب چکھو اس کا مزہ جو تم جمع کرتے رہے ہو“پاکستان میں جب تک عدل کا نظام مستحکم نہیں ہوتا اس وقت تک یہاں مزدوروں اور محنت کشوں کی بھلائی کی توقع ہی نہیں کی جا سکتی آج ہر روز محنت کش مصائب اور مشکلات کی بنا پر خودکشیاں کر رہے ہیں اور…… حکومت بے حسی کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہے‘ اسے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا وہ قول یاد نہیں ہے جس کے مطابق انہوں نے فرمایا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو عمر قیامت کے روز جواب دہ ہوگا پاکستان کے مزدوروں کو چاہیے کہ وہ متحد ہوں اور اپنے حقوق کے لیے منظم جدوجہد کریں اور پاکستان کے وسائل میں سے اپنا پورا حق حاصل کریں پانچ فیصد سرمایہ دار اور جاگیردار پاکستان کے وسائل پر ناجائز قابض ہیں اب وقت آگیا ہے کہ محنت کش عوام اپنے حقوق کے لیے بھرپور اور نتیجہ خیز تحریک چلائیں اور طبقاتی جدوجہد کا آغاز کرکے علامہ اقبال کا یہ خواب پورا کر دیں کہ
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
آج بھی پاکستان میں مزدوروں کو ان کی محنت کی پوری اجرت نہیں دی جاتی‘موجودہ حالات میں مزدور محنت کش عوام زندگی کے پل صراط سے گزر رہے ہیں خود کشیاں ان کا مقدر بن چکی ہیں‘ ان کے پھول جیسے بچے خوراک دوائیں اور صاف پانی نہ ملنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں‘ امیروں کے کتے دودھ پیتے اور امپورٹڈ خوراک کھاتے ہیں، مزدور کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں جبکہ ایوان صدر اور پرائم منسٹر سیکریٹریٹ کے بجٹ مسلسل بڑھ رہے ہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نہ اسلامی نظام ہے اور نہ ہی جمہوریت ہے۔ مہنگائی اور ناجائز منافع خوری نے محنت کش عوام کا جینا حرام کر دیا ہے بیڈ گورننس کی وجہ سے ہر با اثر شخص عوام کا استحصال کرنے میں آزاد ہے‘یکم مئی کا دن یوم مئی کے طور پر قربانیوں سے لبریز مزدوروں کی اس جدوجہد کے ساتھ منسوب ہو چکا ہے۔ یہ دن کارخانوں‘ کھیتوں‘ کھلیانوں‘ کانوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں سرمائے کی بھٹی میں جلنے والے لاتعداد محنت کشوں کا دن ہے اور حقیقت یہی ہے کہ آج بھی یہ طبقہ سرمایہ داری نظام کے زیرتسلط بری طرح پس رہا ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ موجودہ جان لیوا مہنگائی اور حکومتی ناقص پالیسیوں کے باعث بڑھنے والی بے روزگاری کے نتیجہ میں مزدور طبقات آج عملاً زندہ درگور ہو چکے ہیں جنہیں ملازمت کا کوئی تحفظ بھی حاصل نہیں۔ آج روزانہ 12 سے 14 گھنٹے کام کرنے اور ڈبل شفٹیں لگانے والے مزدور کو اتنی اجرت بھی نہیں ملتی کہ وہ اپنے اہل خانہ کی ضروریات زندگی کے مطابق کفالت کر سکے`آئین پاکستان کے انسانی حقوق کے چیپٹر میں بھی شہریوں کو صحت‘ تعلیم‘ روزگار کی سہولت فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ٹھہرائی گئی ہے مگر عملاً یہی طبقات آج بھی سب سے زیادہ غیرمحفوظ ہیں۔ بلاشبہ مزدور ایک قابل رحم طبقہ ہے‘ انکی اجرت کا تعین مہنگائی کی مناسبت سے ہی کیا جانا چاہیے اور متعلقہ قوانین پر موثر عملدرآمد کے ذریعے ان کا استحصال روکا جانا چاہیے۔ اگر مزدور طبقہ اپنے حالات سے غیرمطمئن اور مایوس ہوگا تو حکومتی گورننس بھی چیلنج ہوتی رہے گی۔
جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے