باعث افتخار انجنیئر افتخار چودھری
بھارت کی سیاست میں جن تنظیموں اور نظریات نے سب سے زیادہ دور رس اثرات مرتب کیے، ان میں “راشٹریہ سویم سیوک سنگھ” (RSS) کا نام سرفہرست ہے۔ یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو بظاہر ایک “رضاکار تنظیم” کے طور پر جانی جاتی ہے، لیکن اس کا خمیر نفرت، تفریق اور شدت پسند قوم پرستی سے اٹھا ہے۔ آر ایس ایس کا قیام 27 ستمبر 1925 کو ناگپور میں ہوا، جس کے بانی “کیشو بلیرام ہیڈگوار” تھے۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف تحریکِ آزادی زوروں پر تھی، لیکن آر ایس ایس کی ترجیح آزادی نہیں، ہندو قوم پرستی تھی۔ انہوں نے مہاتما گاندھی کی “تمام ادیان کی برابری” والی سوچ کو بھی رد کیا اور مسلم، عیسائی، سکھ اور دیگر اقلیتوں کو “باہر سے آئے ہوئے لوگ” قرار دیا۔
ہیڈگوار اور ان کے بعد آنے والے آر ایس ایس رہنماؤں، بالخصوص “ایم ایس گوالوالکر”، نے ایک نیا سیاسی بیانیہ تشکیل دیا جسے “ہندوتوا” (Hindutva) کہا جاتا ہے۔ اس بیانیے کے مطابق، ہندوستان صرف ہندوؤں کا ملک ہے اور مسلمان یا عیسائی محض مہمان یا حملہ آور ہیں۔ گوالوالکر نے اپنی کتاب “We or Our Nationhood Defined” میں جرمنی کے نازی ماڈل کو سراہتے ہوئے لکھا کہ جس طرح ہٹلر نے یہودیوں سے نجات حاصل کی، بھارت کو بھی مسلمانوں سے ویسا ہی سخت رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
یہ نظریہ بعد ازاں بی جے پی، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور شیو سینا جیسی تنظیموں کے ذریعے بھارت کے سیاسی دھارے میں داخل ہوا۔ نریندر مودی نے اپنی عملی سیاست کا آغاز 1970 کی دہائی میں آر ایس ایس کے “پرچارک” (مبلغ) کے طور پر کیا۔ ان کا ذہن، رویہ، اور حکمتِ عملی مکمل طور پر آر ایس ایس کی فکر سے متأثر ہے۔ نریندر مودی کی اصل شہرت 2002 کے گجرات فسادات سے ہوئی، جب وہ ریاست کے وزیراعلیٰ تھے اور ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ اس وقت عالمی برادری نے انہیں “قصابِ گجرات” کے نام سے یاد کیا، یہاں تک کہ امریکہ نے ان کا ویزا تک منسوخ کر دیا۔
2014 میں جب نریندر مودی وزیراعظم بنے، تو یہ صرف اقتدار کی تبدیلی نہیں تھی، بلکہ ایک نظریے کی حکمرانی کا آغاز تھا۔ اب بھارت سیکولر آئین کے باوجود عملی طور پر ایک “ہندو راشٹر” بننے لگا۔ مسلمانوں کو گائے کے گوشت کے نام پر قتل کیا جانے لگا، مساجد کو شہید کرنے کی مہم شروع ہوئی، شہریت کا قانون (CAA/NRC) آیا، اور اقلیتوں کے خلاف نفرت کو ریاستی سرپرستی حاصل ہونے لگی۔
ان ہی نظریاتی عزائم کا ایک بڑا اظہار 5 اگست 2019 کو ہوا، جب مودی حکومت نے آرٹیکل 370 اور 35A ختم کر کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر دیا۔ یہ قدم بغیر کشمیری قیادت کی مشاورت یا رائے کے اٹھایا گیا۔ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں بدل دیا گیا، لاکھوں فوجی تعینات کیے گئے، مواصلاتی نظام بند کر دیا گیا، اور دنیا سے اس کی آواز کا رابطہ کاٹ دیا گیا۔ اس اقدام کا مقصد صرف سیاسی کنٹرول نہیں بلکہ ایک فکری اور آبادیاتی تبدیلی تھا: کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ صرف مودی یا آر ایس ایس کا داخلی ایجنڈا ہے؟ یا اس کے پیچھے کوئی بڑا عالمی نظریاتی گٹھ جوڑ بھی کام کر رہا ہے؟ یہاں پر ہمیں اسرائیل کے کردار کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ بھارت اور اسرائیل کے تعلقات صرف سفارتی نہیں، بلکہ نظریاتی ہم آہنگی پر مبنی ہیں۔ دونوں ریاستیں خود کو “محصور قوم” سمجھتی ہیں، دونوں خود کو ایک مخصوص مذہبی شناخت کے محافظ کے طور پر پیش کرتی ہیں، اور دونوں اقلیتوں کو مشتبہ اور خطرہ سمجھتی ہیں۔
اسرائیل نے جس طرح فلسطین میں بستیوں کی تعمیر، آبادیاتی تبدیلی، شناخت کی تحریف اور ریاستی جبر کو “قانونی” شکل دی، بھارت اب وہی ماڈل کشمیر میں لاگو کر رہا ہے۔ اسرائیل بھارت کو نگرانی، ہتھیاروں، اور ٹیکنالوجی فراہم کرتا ہے، اور دونوں ممالک انسدادِ دہشت گردی کے نام پر ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھتے ہیں۔ آر ایس ایس کی قیادت کھلے عام اسرائیل کے “سیکیورٹی ماڈل” کو سراہتی ہے اور اس کی تقلید کو اپنا حق سمجھتی ہے۔
یہ اتفاق نہیں کہ جب کشمیر کی حیثیت بدلی گئی تو اسرائیلی قیادت نے سب سے پہلے حمایت کی۔ اسرائیلی کمپنیوں کو کشمیر میں سرمایہ کاری کی دعوت دی گئی، اور اسرائیلی ماہرین کو سکیورٹی نظام کا حصہ بنایا گیا۔ فلسطین کی طرح کشمیر بھی اب نظریاتی و جغرافیائی قبضے کی نذر ہو رہا ہے۔ مودی اور نیتن یاہو کی ملاقاتیں، مشترکہ مشقیں، اور بین الاقوامی سطح پر ایک دوسرے کی حمایت، اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایک نیا اتحاد بن چکا ہے—جس کی بنیاد ظلم، تفریق، اور جبر پر ہے۔
یہ نیا اتحاد نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ عالمی امن کے لیے ایک خطرہ ہے۔ یہ مسلمانوں کے خلاف نفسیاتی، نظریاتی، اور عسکری جنگ کا اعلان ہے۔ اسرائیل فلسطین میں جو کچھ کر رہا ہے، بھارت وہی کشمیر میں دہرا رہا ہے—اور دونوں کے ہاتھ میں ایک ہی نظریہ ہے: اپنے مذہبی ایجنڈے کو ریاستی طاقت کے ذریعے نافذ کرنا۔
لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ظلم زیادہ دیر قائم نہیں رہتا۔ فلسطین کی مائیں آج بھی پتھروں سے ٹینکوں کا مقابلہ کر رہی ہیں، اور کشمیر کے نوجوان بندوقوں سے نہیں، حوصلوں سے لڑ رہے ہیں۔ وقت کا پہیہ ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ اگر ہم نے آج اس گٹھ جوڑ کو نہ پہچانا، تو کل نہ صرف کشمیر اور فلسطین بلکہ خود ہمارے گھروں کی چھتیں بھی غیر محفوظ ہوں گی۔