باعث افتخار انجینئر افتخار چودھری
دنیا میں کچھ تعلقات مفادات کے تحت بنتے ہیں اور وقت کے ساتھ ختم ہو جاتے ہیں، لیکن کچھ رشتے دلوں سے جُڑتے ہیں اور وقت کے ساتھ مضبوط ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کا رشتہ ایسا ہی ایک رشتہ ہے جو محض دو ملکوں کے درمیان نہیں بلکہ دو ملتوں کے دلوں کے درمیان قائم ہے۔ یہ وہ تعلق ہے جو بھائی چارے، ایثار، اخوت، اور اسلامی یکجہتی کی بنیاد پر قائم ہے۔ جب کبھی پاکستان کو کسی مشکل وقت کا سامنا ہوا، سعودی عرب نے بغیر کسی اعلان کے، خاموشی سے عملی مدد کی۔ یہی وہ خوبی ہے جو اس دوستی کو باقی تمام بین الاقوامی تعلقات سے ممتاز بناتی ہے۔
پاکستان کے قیام کے فوراً بعد سعودی عرب نے اس کی حمایت کی اور ہر سطح پر اسے تقویت دی۔ شاہ سعود کا تاریخی دورہ پاکستان اور قائداعظم کے اصولوں سے ہم آہنگی نے دونوں ملکوں کے درمیان بنیاد مضبوط کر دی۔ بعد میں شاہ فیصل اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان جو تعلق قائم ہوا، اس نے اسلامی دنیا میں قیادت کا نیا تصور پیدا کیا۔ شاہ فیصل کے انتقال پر پاکستانی قوم کا دکھ اور غم، اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ یہ صرف ایک بادشاہ نہیں، بلکہ ایک روحانی و جذباتی رشتہ تھا۔
سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کی اقتصادی مشکلات میں عملی مدد فراہم کی ہے۔ جب پاکستان کو زرِمبادلہ کے بحران کا سامنا ہوا، سعودی عرب نے نہ صرف مالی امداد دی بلکہ تیل کی ادائیگی مؤخر کر کے سہولت فراہم کی۔ آج بھی، جب پاکستان معاشی دباؤ کا شکار ہے، سعودی عرب نے تین ارب ڈالر کے قرض کے ساتھ ساتھ تیل کی مسلسل فراہمی جاری رکھی۔ یہ سب کچھ خاموشی سے، بغیر کسی شور شرابے کے، ایک بھائی کی طرح کیا گیا۔
اس دوستی کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت سعودی عرب میں تقریباً پچیس لاکھ پاکستانی مقیم ہیں جو اپنی محنت سے نہ صرف اپنے خاندانوں کا سہارا بنے ہوئے ہیں بلکہ پاکستان کو اربوں ڈالر زرمبادلہ بھیج کر ملکی معیشت کا پہیہ چلا رہے ہیں۔ سعودی حکومت نے ان پاکستانیوں کو ہمیشہ عزت، روزگار، تحفظ اور مذہبی آزادی دی ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے کوئی بھی محب وطن پاکستانی جھٹلا نہیں سکتا۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دینی تعلق کی بنیاد بہت مضبوط ہے۔ مکہ اور مدینہ، جہاں سے اسلام کی روشنی پھیلی، وہ سرزمین ہے جو ہر مسلمان کے لیے متبرک ہے۔ پاکستانی عوام کا دلی رجحان اور روحانی وابستگی ان مقامات سے جُڑی ہوئی ہے۔ ہر سال لاکھوں پاکستانی حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے سعودی عرب جاتے ہیں اور سعودی حکومت کی بہترین انتظامات پر دل سے دعائیں دیتے ہیں۔ یہی دینی تعلق عوامی سطح پر اس دوستی کو ناقابلِ تسخیر بناتا ہے۔
تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ حالیہ برسوں میں کچھ سازشی عناصر اور دشمن قوتیں اس دوستی کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں، من گھڑت تجزیوں اور جعلی ویڈیوز کے ذریعے عوام میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ہے بلکہ قومی مفاد کے سراسر خلاف ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ دشمن صرف سرحدوں پر حملہ نہیں کرتا، وہ ذہنوں میں شک، دلوں میں نفرت، اور سچائی پر پردہ ڈالنے کے ہتھیار بھی استعمال کرتا ہے۔ فیک نیوز کی دنیا میں ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر جب بات ایسے نازک اور عظیم تعلق کی ہو جیسے پاکستان اور سعودی عرب کا ہے۔میں خاص طور پر صدر ٹرمپ کے حالیہ دورے کے بارے میں ان کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ الفاظ جو بالکل فیک ہیں وہ ہمارے سوشل میڈیا میں چل رہا ہے میں اس کی پرزور مذمت کرتا ہوں ہاں جی
پاکستان کے سیاسی حلقوں کو بھی چاہیے کہ وہ سعودی عرب جیسے دیرینہ دوست کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال نہ کریں۔ کسی بھی مسئلے یا اندرونی اختلاف کو اس عظیم رشتے پر اثر انداز نہیں ہونے دینا چاہیے۔ سعودی قیادت نے ہمیشہ پاکستان کے عوام کے جذبات کا احترام کیا ہے۔ خواہ وہ کشمیر کے مسئلے پر حمایت ہو یا عالمی فورمز پر پاکستان کے مؤقف کی تائید، سعودی عرب نے اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کیا ہے۔
میری گزارش ہے کہ جو لوگ اس دوستی کے خلاف بول رہے ہیں یا سوشل میڈیا پر جھوٹے دعوے پھیلا رہے ہیں، وہ نہ صرف ایک عظیم رشتے کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ پاکستان کے ان لاکھوں محنت کشوں کی روزی روٹی سے بھی کھیل رہے ہیں جو سعودی عرب میں کام کر رہے ہیں۔ دشمن کو یہ موقع ہرگز نہ دیا جائے کہ وہ ہمارے دلوں میں دراڑ ڈال سکے۔
میں اس موقع پر دل سے شکر گزار ہوں جناب حافظ اللہ کا جنہوں نے اس موضوع کی طرف میری توجہ مبذول کرائی اور ایک درد دل رکھنے والے محب وطن پاکستانی کی طرح اس دوستی کے دفاع کا جذبہ اجاگر کیا۔ اسی طرح معروف صحافی محترمہ سمیرہ عزیز اور اسرار خان نے بھی میری راہنمائی کی اور مجھے اصل حقائق سے روشناس کرایا۔
یہ دوستی فقط حکومتوں کی نہیں، یہ ہمارے دلوں کی، ہماری تاریخ کی، اور ہماری شناخت کی دوستی ہے۔ اس کا دفاع ہمارا دینی، اخلاقی اور قومی فریضہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ جہاں کہیں اس رشتے کے خلاف بات ہو، ہم اس کا جواب دلیل، محبت اور حقیقت سے دیں۔ یہ دوستی ایک چراغ کی مانند ہے جو صدیوں تک روشنی دیتا رہے گا، بشرطیکہ ہم اس کی لو کو سازشوں کی آندھیوں سے بچا کر رکھیں