باعث افتخار انجینئر افتخار چودھری
ریاست کی طاقت اس وقت معتبر اور مستحکم ہوتی ہے جب اس کے ادارے آئین و قانون کے تابع ہوں۔ لیکن اگر یہی ادارے کسی مخصوص حکومت یا شخصیت کی خوشنودی کے لیے اپنی پیشہ ورانہ حدود سے تجاوز کریں، تو یہ محض ناانصافی نہیں بلکہ پورے نظامِ انصاف کی جڑوں کو ہلا دینے والی بات ہے۔
اڈیالہ جیل کے باہر جو مناظر دیکھنے کو ملے، وہ ہر اس شخص کے دل کو زخمی کرتے ہیں جو قانون، اخلاق اور انصاف پر یقین رکھتا ہے۔ خواتین پارلیمنٹیرینز کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا گیا، وہ نہ صرف انسانی اقدار کی خلاف ورزی تھی بلکہ آئین کی بھی صریحاً نفی ہے۔طیبہ راجہ، ریحانہ ڈار، صنم جاوید شمیم افتاب سبرینہ جاوید فرح آڑا جیسی باوقار خواتین کو جس انداز میں ہراساں کیا گیا، وہ کسی بھی مہذب معاشرے کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔خان کی بہنوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا
اسی تسلسل میں ہم خواتین پارلیمنٹیرینز کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی مذمت تو کرتے ہی ہیں، لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ صرف خواتین ہی نہیں، ہمارے منتخب مرد نمائندے بھی اس غیر ذمہ دارانہ سلوک کا شکار ہوئے۔ جن میں قومی اسمبلی کے معزز ارکان عامر ڈوگر، مینا خان، سہیل آفریدی، اور دیگر نمایاں شخصیات شامل ہیں۔ ان سب کو بھی اسی غیر آئینی اور تحقیر آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑا۔
پارلیمنٹیرینز کسی بھی جمہوری ملک میں عزت و احترام کا مقام رکھتے ہیں، مگر راولپنڈی پولیس نے جس طرح ان کے ساتھ سلوک کیا، وہ نہ صرف غیر پیشہ ورانہ تھا بلکہ اس نے ادارے کی اپنی ساکھ کو بھی داغدار کیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پنڈی پولیس نے خود اپنے چہرے پر کالک مل لی ہو۔
ہم اس رویے کی شدید اور پرزور مذمت کرتے ہیں۔
اور پھر یہ کہ منگل کا دن، جو قانوناً فیملی ملاقات کے لیے مقرر ہے، اس دن صرف علیمہ خان اور دو خواتین کو عمران خان صاحب سے ملاقات کی اجازت دینا باقی سب کو روک دینا—یہ بھی آئین شکنی کے زمرے میں آتا ہے۔ ریاستِ مدینہ کا خواب دکھانے والوں نے اپنے ہی قانون کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔
تاہم یہ جان کر اطمینان ہوا کہ خان صاحب خیریت سے ہیں، اور انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ کوئی ڈیل نہیں ہو رہی، اور جو پس پردہ مفروضے پھیلائے جا رہے ہیں، وہ بے بنیاد ہیں۔ علیمہ خان نے ملاقات کے بعد یہی بتایا، جس سے قوم کو تقویت ملی۔
ان واقعات کو دیکھ کر میرے ذہن میں اپنے بزرگ، چوہدری دادن خان گجر کا کردار ابھرتا ہے—جو برطانوی دور میں پولیس میں ملازم تھے۔ ایک بار انہیں لاہور سے لکھنؤ یک ملزم کو لانے کی ذمہ داری دی گئی۔ وہ یہ فرض پوری دیانتداری سے انجام دے کر لوٹے، تو حکومت نے انہیں 50 روپے انعام دیا (جبکہ ان کی ماہانہ تنخواہ صرف 17 روپے تھی)۔ دادا جی نے وہ رقم خزانے میں یہ لکھ کر واپس کر دی:
“یہ تو میرا فرض تھا، انعام لینا مناسب نہیں سمجھتا۔”
یہ وہ کردار تھا جس پر ایک وقت میں پولیس کو فخر ہوتا تھا۔ آج بھی اگر پولیس کے افسران اور اہلکار اپنا اصل فرض پہچانیں، تو عوام کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔ ہم اداروں کے مخالف نہیں، ہم تو ان کی عزت چاہتے ہیں، لیکن ایسی عزت جو کردار سے کمائی جائے، نہ کہ طاقت کے زور پر مسلط کی جائے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کچھ اہلکار ‘شاہ سے زیادہ وفادار’ بن کر اپنے ہی ادارے کی عزت پامال کر رہے ہیں۔ عوام پہلے ہی پولیس سے خوفزدہ تھے، اب یہ خوف نفرت میں بدلتا جا رہا ہے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ اس ملک کے ادارے اپنی اصلاح کریں گے، اور سیاست سے بالا تر ہو کر صرف قانون اور آئین کے مطابق فیصلے کریں گے۔ بصورتِ دیگر، عوامی اعتماد کا بحران گہرا ہوتا چلا جائے گا۔
“ادارے جب طاقت کے بجائے اصولوں پر کھڑے ہوں، تبھی ریاست کو دوام حاصل ہوتا ہے۔”