بدلے کی آگ میں سلگتا مودی

از: انجینئر افتخار چودھری

مودی کا یہ کہنا کہ ’’میں بدلے کی آگ میں جل رہا ہوں، پاکستانی آرمی چیف میرا اصل ٹارگٹ ہے‘‘ اُس کے ذہنی انتشار، نفرت اور شکست خوردگی کی واضح علامت ہے۔ یہ جملہ صرف سیاسی غصے کا اظہار نہیں بلکہ اُس احساسِ ہزیمت کی جھلک ہے جو پاکستان کی عسکری کامیابیوں نے بھارت کے دل میں پیدا کی ہے۔ بھارت کے حکمرانوں کے لیے سب سے بڑا صدمہ یہ ہے کہ وہ ہر سازش، ہر پروپیگنڈا اور ہر دباؤ کے باوجود پاکستان کو کمزور نہیں کر سکے۔ رافیل کا غرور خاک میں ملنا مودی کے تکبر کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔
پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہے۔ ہماری فوج اور سیاسی قیادت ہمیشہ امن چاہتی ہے، لیکن امن کمزوری سے نہیں، طاقت سے قائم ہوتا ہے۔ مودی کی حکومت نے جب بھی پاکستان پر الزام تراشی کی، اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی اندرونی سیاسی مقصد چھپا ہوتا ہے۔ کبھی وہ کشمیر میں ناکامی چھپانے کے لیے پاکستان پر حملے کی بات کرتا ہے، کبھی انتخابی سیاست میں فائدہ اٹھانے کے لیے جنگی جنون بھڑکاتا ہے۔ مگر پاکستان نے ہمیشہ تحمل اور تدبر کے ساتھ جواب دیا۔ تاہم، جب دشمن نے حد پار کی، تو ہماری افواج نے وہ جواب دیا جو تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔
پاکستانی قوم جانتی ہے کہ بھارت کا اصل مسئلہ پاکستان کی جغرافیائی نہیں بلکہ نظریاتی طاقت ہے۔ دو قومی نظریہ آج بھی بھارت کے سینے میں کانٹے کی طرح چبھتا ہے۔ وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ ایک مسلمان قوم اپنی الگ شناخت کے ساتھ دنیا کے نقشے پر موجود ہے، جو اسلام، غیرت اور خودداری پر یقین رکھتی ہے۔ یہی نظریہ آج بھارت کی آنکھوں میں چبھن بن کر ہے۔
بدقسمتی سے، ہمارے ملک کے اندر بھی کچھ ایسے طبقات ہیں جو بھارت کے بیانیے کو دانستہ یا نادانستہ تقویت دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو امن کے نام پر دشمن کی مکاری کو بھول جاتے ہیں۔ کبھی وہ ’’امن کی آشا‘‘ کے نغمے گاتے ہیں، کبھی بھارت کو ’’موسٹ فیورٹ نیشن‘‘ قرار دینے کی بات کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مذاکرات سے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات ہمیشہ یکطرفہ رہے ہیں۔ وہ ہمیں دھوکہ دیتا ہے، اور ہم اس کے فریب کو امن کا نام دیتے ہیں۔
78 سالوں میں بھارت نے کبھی پاکستان کے وجود کو دل سے قبول نہیں کیا۔ اُس نے ہر ممکن کوشش کی کہ ہمیں سیاسی، عسکری اور سفارتی طور پر کمزور کیا جا سکے۔ اُس نے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کیا، کشمیر پر قبضہ جمایا، سیاچن پر حملہ کیا، کارگل کا جھوٹا شور مچایا، اور ہر بار پاکستان کو عالمی دباؤ میں لانے کی کوشش کی۔ مگر جب پاکستان نے دشمن کے خلاف عملی جواب دیا، تو وہ چیخ اٹھے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے اندر انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی۔ بلوچستان، کراچی، اور گلگت بلتستان میں بھارتی خفیہ ایجنسیاں تخریب کاری کے منصوبے بناتی رہیں۔ مگر ان تمام سازشوں کے باوجود پاکستان قائم ہے اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہے۔
حالیہ برسوں میں یہ خبریں گردش میں رہیں کہ بھارت نے کچھ پاکستانی سیاسی حلقوں سے خفیہ طور پر رابطے کیے۔ خاص طور پر ن لیگ کے بعض رہنماؤں کے حوالے سے یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ بھارتی حکام ان سے رابطے میں تھے، اور دہشت گرد تنظیموں کے مبینہ ٹھکانوں پر حملوں کے سلسلے میں تعاون کی بات کی گئی۔ اگر یہ درست ہے تو یہ انتہائی سنگین معاملہ ہے، جو قومی خودمختاری پر سوال اٹھاتا ہے۔
اسی تناظر میں رانا ثناء اللہ کا بیان یاد آتا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’بھائی، اگر انڈیا نے ہم پر حملہ نہ کیا تو ہم کوئی جواب نہیں دیں گے۔‘‘ اس قسم کے جملے دشمن کو شہہ دیتے ہیں اور قوم کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ہے بلکہ اس سے پاکستان کا دفاعی موقف کمزور دکھائی دیتا ہے۔
اسی دوران آئی ایس پی آر کے ایک افسر کا دو ٹوک بیان آیا: ’’جواب دینا ہمارا حق ہے۔ کب اور کیسے دیں گے، یہ مودی کو پتہ چل جائے گا۔‘‘ یہ جملہ صرف ایک بیان نہیں بلکہ پوری قوم کی آواز تھا۔ یہ اعلان تھا کہ پاکستان کسی کے دباؤ میں آنے والا ملک نہیں۔ ہم اپنی سلامتی اور خودمختاری کا تحفظ ہر قیمت پر کریں گے۔
مودی کے یار آج بھی مختلف چہروں میں چھپے ہوئے ہیں۔ کبھی وہ لبرل ازم کے نام پر بولتے ہیں، کبھی جمہوریت کی آڑ میں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کا خواب محض ایک فریب ہے۔ ہر بار بھارت نے مذاکرات کے نام پر وقت ضائع کیا، اور کشمیر کے مسئلے کو دبانے کی کوشش کی۔ مودی نے خود اعتراف کیا کہ وہ آر ایس ایس کے نظریے کا پیروکار ہے۔ اُس کے نزدیک پاکستان سے دشمنی ایمان کا حصہ ہے۔ ایسے شخص سے خیر کی توقع رکھنا خود فریب کے سوا کچھ نہیں۔
اور یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے، جو بطور پاکستانی، بطور محب وطن، میرے دل میں مسلسل گونجتا ہے۔
انجینئر افتخار چوہدری کا ایک سوال: اس مختصر وقفے کی جنگ میں نواز شریف کا کوئی ایک بیان نہیں ملتا جو انڈیا کے خلاف دیا گیا ہو۔ حیرت ہوتی ہے کہ اتنی بڑی جارحیت، اتنی کھلی دھمکیوں کے دوران بھی ان کی زبان پر ایک لفظ نہیں آیا۔ ہاں، اگر وہ اس وقت بہت مصروف ہوں، شاید جنگ کا پلان بنا رہے ہوں، تو پھر یہ خاموشی سمجھ میں آتی ہے!
ہمیں اب فیصلہ کرنا ہے کہ ہم بطور قوم کہاں کھڑے ہیں۔ کیا ہم دشمن کے پروپیگنڈے کا شکار بنیں گے یا اپنے نظریے پر قائم رہیں گے؟ پاکستان کو آج سیاسی انتشار سے زیادہ خطرہ کسی بیرونی دشمن سے نہیں۔ ہم نے اپنی توانائیاں ایک دوسرے کے خلاف صرف کر رکھی ہیں۔ سیاست دان اقتدار کے لیے ایک دوسرے کو غدار، چور، ڈاکو اور لٹیرا کہتے ہیں۔ عوام میں نفرت اور تقسیم بڑھ رہی ہے۔ دشمن یہی چاہتا ہے کہ پاکستانی ایک دوسرے سے لڑتے رہیں تاکہ اسے فائدہ ہو۔
پاک فوج اس ملک کی واحد منظم، مضبوط اور وفادار ادارہ ہے۔ اس پر تنقید دراصل دشمن کے ایجنڈے کو تقویت دیتی ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے جس نے قربانیوں سے ملک کو بچایا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا قدرتی آفات، یہی فوج ہر محاذ پر کھڑی ہے۔ جو لوگ شہداء کے خون کی تضحیک کرتے ہیں، وہ دراصل اس وطن کی جڑوں پر حملہ کرتے ہیں۔
پاکستان کے دفاع کی بنیاد ہماری خود انحصاری پر ہے۔ جے ایف 17 تھنڈر اسی خود انحصاری کی علامت ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل میں عمران خان کی حکومت نے اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے ایئر چیف کو ہدایت دی کہ یہ معاہدہ جلد مکمل کیا جائے۔ آج یہی طیارے دشمن کے لیے خوف کی علامت بن چکے ہیں۔ بھارت کی عسکری برتری کا خواب اب ٹوٹ چکا ہے۔
یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ آزادی کسی دشمن کے سامنے جھک جانے کا نام نہیں۔ آزادی قربانی، عزم اور غیرت کا تقاضا کرتی ہے۔ مذاکرات اُس وقت ہی معنی رکھتے ہیں جب دونوں فریق برابری کی بنیاد پر بیٹھیں۔ بھارت نے ہمیشہ مذاکرات کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، مگر پاکستان نے ہر بار وقار کے ساتھ جواب دیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔
ہمیں اختلاف رائے کے باوجود ایک بات پر متحد ہونا ہوگا — پاکستان سب سے مقدم ہے۔ ذاتی مفادات، جماعتی سیاست اور اقتدار کی ہوس کو قومی سلامتی پر ترجیح دینا بدترین غداری کے مترادف ہے۔
مودی بدلے کی آگ میں جل رہا ہے، کیونکہ اُس نے پاکستان کو کمزور سمجھا اور ہر بار شکست کھائی۔ اُس کی فوج نفسیاتی دباؤ کا شکار ہے۔ اُس کا میڈیا پاکستان کے خوف میں زندہ ہے۔ اور اُس کے سیاسی مخالفین جانتے ہیں کہ مودی کا سیاسی مستقبل صرف پاکستان دشمنی پر کھڑا ہے۔ مگر پاکستان اب وہ ملک نہیں رہا جو دباؤ میں آئے۔
ہمیں اپنی خودی، اپنے ایمان اور اپنے نظریے کو پہچاننا ہوگا۔ پاک فوج، عوام، اور قیادت اگر ایک سمت میں کھڑی ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ دشمن ہماری صفوں میں انتشار دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم متحد رہیں، اپنی فوج کا ساتھ دیں، اور اپنی ریاست کی خودمختاری کا ہر سطح پر دفاع کریں۔
مودی اور اُس کے حواری ہمیشہ پاکستان کے خلاف نفرت کا بیانیہ بناتے رہیں گے، لیکن ہم نے اپنے کردار اور عمل سے دنیا کو دکھانا ہے کہ پاکستان امن چاہتا ہے مگر کمزوری نہیں دکھائے گا۔ ہم وہ قوم ہیں جو ایمان، قربانی اور غیرت پر یقین رکھتی ہے۔
پاکستان کے دشمنوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ملک کسی مصلحت پر نہیں بلکہ ایک نظریے پر قائم ہوا تھا، اور نظریے کو گولیوں، دھمکیوں یا پروپیگنڈے سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان ان شاءاللہ قائم رہے گا، اور مودی جیسے لوگ اپنے ہی نفرت کے شعلوں میں جلتے رہیں گے۔

پاکستان زندہ باد۔