میری امی


میری والدہ‘ اپنے بہن بھائیوں میں والدین کی تیسری اولاد تھیں‘ نام کی طرح اوصاف بھی حمیدہ تھے‘ بہت صابر‘ شاکر اور گلہ کبھی زبان پر نہیں لائیں‘دسمبر1999 میں ان کا انتقال ہوا‘ اللہ مغفرت فرمائے اور جنت میں ان کے درجات بلند کرے آمین‘کتنا مشکل ہے اُس ہستی کے بارے میں لکھنا کہ جس نے لکھنا سکھایا۔ اُن کے متعلق بات کرنا کہ جنہوں نے بات کرنے کے آداب سکھائے، یہاں تک کہ اُن کے متعلق سوچنا بھی کتنا دشوار ہے کہ جن کی سوچیں انتہائی صاف اور منزّہ تھیں۔ ہاں، وہ میری امّی تھیں، جن کے پاکیزہ عادات واطوار کا جب میں بغور مشاہدہ کرتا، تو یہی سوچتا کہ ؎؎انوکھی وضع ہے، سارے زمانے سے نرالے ہیں…. یہ عاشق کون سی بستی کے رہنے والے ہیں۔مَیں نے ہوش کی آنکھیں کُھلتے ہی انہیں ہمہ وقت مصروف پایا۔ علی الصباح نمازِ فجر ادا کرنے اور قرآن پاک کی تلاوت کے بعد کچن میں ناشتا بنانے میں مصروف ہوجاتیں، والد محترم چونکہ ریلوے میں ملازم تھے لہذا انہیں اکثر و بیشتر علی الصبح کسی نہ کسی شہر وذت کے لیے جانا ہوتا تھا‘ ان کے بر وقت ناشتہ تیار کرنا میری والدہ کا معمول تھا‘ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ والد ناشتہ کیے بغیر ہی سفر پر نکلے ہوں‘ وہ دردمند اور حسّاس دل رکھتی تھیں۔ گویا،سارے جہاں کا درد اُن کے جگر میں تھا۔ کسی کی تکلیف کا سُن لیتیں، تو اُس وقت تک چین سے نہ بیٹھتیں، جب تک اپنے تئیں اُس کی کچھ مدد نہ کردیتیں‘ میری چھوٹی خالہ سکول ٹیچر تھیں‘ ہمیں وہ اپنے بچپن کے قصے مزے لے لے سنایا کرتی تھیں انہوں نے بڑی بے غرض طبیعت پائی تھی۔ متاعِ دنیا سے بے نیاز‘ شرم و حیا کا پیکر تھیں،میری امّی اگر محبت کرنے والی خاتون تھیں، بے انتہا صابر تھیں، طویل بیماری کاٹی مگر ان کے صبرو استقلال کا جواب نہ تھا۔ گریہ و زاری کو کبھی پاس پھٹکنے تک نہ دیا ان کی یادیں آج بھی دل میں میلہ سا لگادیتی ہیں۔ اللہ انہیں غریقِ رحمت کرے۔آمین

اپنا تبصرہ لکھیں