امام عالی مقامؓ سمیت 72نفوس قدسیہ کے مقدس جسموں کی امین کربلا کی زمین

محرم الحرام کی دس تاریخ اسلامی کیلنڈر ہی نہیں، پوری انسانی تاریخ کے ایسے منفرد واقعہ کی یاد دلاتی ہے جس کی ہر تفصیل دِلوں کو غم کی شدّت سے دوچار کرنے والی بھی ہے، روحوں کو ایمانی طاقت عطا کرنے والی بھی ہے اور ہر دور کے اذہان کو اپنے حالات کے تجزیے کا موقع دینے کا ذریعہ بھی۔ اُس روز ریگزارِ کربلا میں جو ٹکرائو ہوا اُس میں ایک طرف مسلح چالیس ہزار افراد تھے تو دوسری طرف جنگی اصولوں کے مطابق کم از کم چند ہزار طاقتور جوان ہر طرح کے اسلحے اور خوراک سمیت سازوسامان سے لیس ہونے چاہئیں تھے مگر مدینہ منورہ سے جو قافلہ 28رجب 60ہجری کو سبط رسول ؐحضرت امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ روانہ ہوا اس میں چھ ماہ کے علی اصغر اور کمسن سکینہ سمیت 112افراد شامل تھے جن میں سے امام عالی مقامؓ سمیت 72نفوس قدسیہ کے مقدس جسموں کی امین کربلا کی زمین بنی۔ کیا اقتدار کی جنگ کے لئے نکلنے والے اس طرح دشمن کا سامنا کرتے ہیں کہ اسلحے کے نام پر روایاتِ وقت کے مطابق عام سفر کا حصہ سمجھی جانے والی برائے نام اشیا ساتھ ہوں، عورتیں اور کمسن و شیرخوار بچے ہمراہ ہوں؟ توجہ طلب بات یہ ہے کہ جو کچھ بھی 61ہجری میں سرزمینِ کربلا پر نظر آیا وہ نظریوں کا ٹکرائو تو یقیناً تھا مگر اس کا حصولِ اقتدار کی خواہش سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کا اظہار کئی لوگوں کے نام لکھی گئی تحریروں اور مختلف مواقع پر لشکر اعدا سے خطابات کے دوران واضح لفظوں میں کیا گیا۔ مدینے سے سفر کرنے کی وجہ خلافت کو ملوکیت اور خاندانی وراثت میں بدل کر چند ماہ میں اس ڈھانچے کو بدلنے والے صاحبِ اقتدار کی طرف سے اپنے نمائندے کے ذریعے یہ مطالبہ تھا کہ سیدنا امام حسینؓ اس کی بیعت کریں۔ امام عالی مقام کی تربیت اللہ کے آخری نبیؐ کی آغوشِ شفقت میں ہوئی تھی۔ ان سے زیادہ کون سمجھ سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو دین انسانیت کی رہنمائی کے لئے بھیجا اس میں قیصریت و کسرائیت کی کوئی گنجائش نہیں۔ وہ یہ بات اچھی طرح سمجھتے تھے کہ حاکمِ وقت کے مطالبہ بیعت کو قبول کرنے کا مطلب اس وقت تک کئے گئے اور بعد میں کئے جانے والے تمام اقدامات پر مہر تصدیق ثبت کرنا ہوگا جو ان کے لئے ممکن نہیں تھا جبکہ وہ انکار بیعت کے نتیجے سے بھی واقف تھے۔ چنانچہ انہوں نے پہلے نبیؐ کے شہر کو خونریزی اور بعدازاں حرمِ کعبہ کے تقدس کو پامالی سے بچانے کیلئے حج کی نیت کو عمرے سے بدل کر وہ سفر اختیار کیا جس کی منزل راہِ حق میں حصولِ شہادت کے سوا کچھ نہیں ہو سکتی تھی۔ امام عالی مقامؓ چاہتے تو ان کے ایک اشارے پر ہزاروں افراد جان کی بازی لگانے کے لئے نکل آتے مگر ان کی بصیرت نے وہ راستہ چنا جو اتحادِ امت کی ضرورت تھا۔ انہوں نے مظلومیت کو طاقت بناکر یزید کو شکست دیدی اور وہ فضا پیدا کردی جس میں اسلام کے بنیادی اصولوں میں تبدیلی لانا ممکن نہیں رہا۔ سیدنا امام حسینؓ نے مظلومیت کو اپنی طاقت بناکر موت، مرگ اور فنا کا تصور ہی بدل دیا اور قیامت تک حق کی راہ پر چلنے اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو کامیابی کی راہ دکھا دی۔ یوں امام عالی مقامؓ کا سفر 10محرم 61ہجری کے بعد بھی جاری و ساری ہے۔ آج امت مسلمہ کو جن انتہائی سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے ان کا تقاضا ہے کہ امام عالیؓ مقام کی اتحادِ امت کی بصیرت سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے اسلامی ملکوں کے رہنما مشترکہ حکمت عملی کے تحت اقوامِ متحدہ اور دیگر فورموں پر موثر آواز بن کر سامنے آئیں اور کتاب و سنت پر عمل پیرا ہونے کی اس تعلیم کو مدنظر رکھیں جس پر خطبہ حجتہ الوداع میں بطور خاص زور دیا گیا اور جس پر عمل کرنے والوں کو نوید دی گئی کہ وہ گمراہ نہیں ہوں گے۔

اہم خبریں

اپنا تبصرہ لکھیں