ایک جائزے کے بموجب ملک میں مہنگائی میں تیزی سے کمی آئی ہے اور یہ سلسلہ مسلسل تیسرے مہینے جاری رہا۔ مارچ میں مہنگائی کی شرح 20.7فیصد پر آگئی جس سے حکومتی پیش گوئیاں بھی پیچھے رہ گئی ہیں۔ وزارت خزانہ نے شرح 23.5فیصد کے قریب رہنے کی پیش گوئی کی تھی۔ حکومتی اندازوں اور مارکیٹ کی حقیقی صورتحال کے فرق کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ حکومت کو مستقبل قریب یابعید میں آنے والے چیلنجوں کا اندازہ پیشگی ہوتا ہے جن میں قرضوں کی ادائیگی، آئی ایم ایف کی شرائط، بین الاقوامی مہنگائی کے رجحان، روس یوکرین جنگ کے اثرات، غزہ کی صورت حال، مشرق وسطیٰ کے بحران سمیت متعدد عوامل ہوتے ہیں جن کا تجزیہ ہر وقت جاری رہتا ہے۔ مثال کے طور پر حال ہی میں پیٹرول کے نرخوں میں اضافے سے مہنگائی بڑھنے کا خدشہ نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ جبکہ منگل کے روز نیپرا نے کراچی سمیت ملک بھر کیلئے بجلی دو روپے 76پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔ گیس کی کمیابی اور نرخوں میں اضافے کے واضح امکان کی موجودگی بھی اپنی جگہ ایک آزمائش ہے۔ ان عناصر کی موجودگی میں مہنگائی میں کمی کا رجحان سامنے آنے کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں افراط زر رک گئی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نگراں حکومت کے دور میں مالیاتی نظم سمیت جو سخت فیصلے کیے گئے اور موجودہ حکومت جس حکمت عملی پر کام کر رہی ہے اسکے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ مہنگائی میں کمی افراطِ زر کے عرصے سے بے قابو جن کے قابو میں آنے کا پہلا مثبت اشارہ ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق شہری مراکز میں مہنگائی کی شرح 16.6فیصد اور دیہات اور قصبوں میں 17فیصد سے قدرے اوپر رہ گئی ہے۔ ایکس چینج ریٹ مستحکم رہنے سے آئندہ مہینوں میں مہنگائی میں مزید کمی کا امکان ہے۔ اس کے نتیجے میں لوگوں کو ریلیف ملے گا اور معاشی سرگرمیاں تیز ہوں گی۔ توقع کی جانی چاہئے کہ افراطِ زر میں کمی کا یہ رجحان جاری رہے گا۔
