ہم کیوں سوچیں


پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ خطے میں امن خراب کرنیوالے عمل کا حصہ نہیں بنیں گے‘ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد خطے کے حالات میں تبدیلی آئی ہے ترجمان کے مطابق وزیراعظم اور آرمی چیف بھی اپنی سرزمین کسی کیخلاف استعمال ہونے کی اجازت نہ دینے کا کہہ چکے ہیں۔ ہم خطے میں امن چاہتے ہیں مگر ملکی سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہوگا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بات چیت کی تھی۔ آرمی چیف نے انہیں بتایا کہ خطہ خراب حالت سے بہتری کی طرف جارہا ہے اسکے برعکس مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ خطہ حالات بہتر ہونے کے باوجود ابتری کی طرف جارہا ہے آرمی چیف نے انہیں کہا کہ خطے کے ممالک میں کشیدگی کم ہونی چاہیے۔ افغان مصالحتی عمل کو خراب کرنے کی کوشش سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ہمارا خطہ چار دہائیوں سے امن کیلئے کوششیں کرتا رہا ہے بھارت نے جارحیت دکھائی جبکہ پاکستان نے ہر وہ اقدام کیا جس سے امن قائم ہو۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ افواج پاکستان ملک کا دفاع کرنا جانتی ہیں اور بھارت بھی یہ بات جانتا ہے اس امر کا اعادہ کیا کہ ہم اپنی سرزمین کسی کیخلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دینگے اور ہر وہ کام کرینگے جو خطے کو امن کی طرف لے کر جائے۔ پاکستان کسی کا یا کسی چیز کا فریق نہیں بنے گا‘ صرف امن کا شراکت دار بنے گا انکی عوام اور میڈیا سے درخواست ہے کہ صرف معتبر ذرائع کی بات چیت پر توجہ دیں افواہوں پر قطعاً توجہ نہ دیں افواہیں پھیلانے میں بھارت مرکزی کردار ادا کررہا ہے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی باور کرایا ہے کہ ہم خطے میں امن‘ استحکام اور سلامتی کے ساتھ کھڑے ہیں اور خطے میں امن و سلامتی کیلئے کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ ایرانی‘ سعودی‘ ترک اور اماراتی وزراء خارجہ سے بھی رابطے کئے گئے اس امر کا اعادہ کیا کہ پاکستان علاقائی تنازعہ کا حصہ بنے گانہ اپنی سرزمین کسی کیخلاف استعمال ہونے دیگا ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو انکے ساتھیوں سمیت ڈرون حملے میں قتل کراکے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے سنگین خطرات لاحق کردیئے ہیں۔ ایران نے بدلہ لینے کی دھمکی دی ہے جس کے جواب میں ٹرمپ نے ایران کے 52‘ اہم اور حساس مقامات کے امریکی ہدف پر ہونے اور ایران کیخلاف نیا ہتھیار استعمال کرنے کا اعلان کرکے خطے میں پیدا ہونیوالی کشیدگی میں اضافہ کردیاہے۔ امریکی صدر نے صرف زبانی دھمکیوں پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ ہزاروں امریکی میرینز مشرق وسطیٰ روانہ بھی کردیئے گئے ہیں اور برطانیہ نے بھی اپنے دو بحری بیڑے بھجوا دیئے ہیں جو حالات کی سنگینی کا واضح اشارہ دے رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے بقول تہران نے حملہ کیا تو جوابی حملہ تیز اور انتہائی شدت کے ساتھ کیا جائیگا اس صورتحال میں خطے کا کوئی ملک کشیدگی کی اس لہر سے محفوظ نہیں رہ سکتا اور سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے اسی تناظر میں خبردار کیا ہے کہ دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے اور ایران اس جنگ کا نکتہ آغاز ہوگا۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ تک کہہ دیاکہ مشرق وسطیٰ میں طبل جنگ بج چکا ہے اور اسرائیل کو زیادہ سے زیادہ عربوں کو ہلاک کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ صدر ٹرمپ کی زیرکمان امریکہ نے مسلمانوں کیخلاف ایک نئی کروسیڈ کا آغاز کردیا ہے مسلم دنیا کو اپنے تمام فروغی اختلافات تج کر امتِ واحدہ کے طور پر اتحاد و یکجہتی کی لڑی میں خود کو پرونا ہوگا۔ اس حوالے سے اتحاد امت کیلئے سب سے پہلے عراق نے پیش رفت کی اور عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے نہ صرف ایران کے مقتول کمانڈر قاسم سلیمانی کی نماز جنازہ میں شرکت کی اپنے ملک سے امریکی افواج کے انخلاء کا مطالبہ کرتے ہوئے اس کیلئے عراقی پارلیمنٹ میں قرارداد بھی منظور کرالی اور پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے یہ انکشاف بھی کیا کہ ایرانی جنرل سلیمانی سعودی عرب کیلئے اہم پیغام لے کر آئے تھے جن سے انکی ملاقات شیڈول تھی۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی یقیناً اتحاد امت کے نکتہ نظر کے تحت ہی برادر مسلم ممالک ایران‘ سعودی عرب‘ ترکی اور متحدہ عرب امارات کے اپنے ہم منصب وزراء خارجہ سے رابطے کئے ہیں امریکہ نے اپنے حالیہ اقدامات سے صرف ایران کیلئے نہیں‘ مشرق وسطیٰ اور ہمارے خطے کے تمام ممالک کیلئے سنگین خطرات پیدا کئے ہیں اور اگر امریکہ ایران کشیدگی عالمی ایٹمی جنگ پر منتج ہوتی ہے تو اسکی تباہ کاریاں پوری دنیا میں پھیل سکتی ہیں چنانچہ کوئی بھی ملک اس صورتحال سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ یہی وقت ہے کہ تمام عالمی قیادتیں اور نمائندہ عالمی اداروں کے سربراہان سرجوڑ کر بیٹھیں اور عالمی امن و سلامتی کو دامن گیر ہوتی امریکہ ایران کشیدگی کو ٹھنڈا کرنے کیلئے کوئی قابل عمل راستہ تلاش کریں بصورت دیگر کسی کے کچھ ہاتھ نہیں آئیگا ہمارے لئے تو یہ صورتحال اور بھی تشویشناک ہے کہ ہمیں پہلے ہی ازلی مکار دشمن بھارت کے ہاتھوں اپنی سلامتی کو سخت خطرات لاحق ہیں جس کی مودی سرکار مقبوضہ کشمیر میں اور کنٹرول لائن پر اشتعال انگیزیوں میں اضافہ کرکے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کا جواز ڈھونڈ رہی ہے۔ چونکہ مودی سرکار کو بھی اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کیلئے امریکی ٹرمپ انتظامیہ کی سرپرستی حاصل ہے اس لئے خود ٹرمپ کا اس خطے میں مودی کی ڈگر پر چلنا فی الواقع طبل جنگ بجانے کے مترادف ہے۔ اس میں ماضی کی طرح امریکہ کے ساتھ کھڑا ہونا اور اسکے مفادات کی جنگ میں پہلے ہی کی طرح اسکے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کرنا ہمارے لئے پہلے سے بھی زیادہ مضر ثابت ہو سکتا ہے۔ امریکی نائن الیون کے بعد بدقسمتی سے اس وقت کے کمانڈوصدر جنرل مشرف نے محض ایک ٹیلی فونک کال پر ڈھیر ہو کر امریکی احکام کی تعمیل کیلئے سر تسلیم خم کرلیا نتیجتاً پاکستان امریکی فرنٹ لائن اتحادی بن کر بدترین دہشت گردی‘ خودکش حملوں اور پھر امریکی ڈرون حملوں کی بھی لپیٹ میں آگیا۔ اس جنگ میں پاکستان نے نہ صرف امریکی نیٹو فورسز کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کی بلکہ اپنے تین ایئربیسز بھی امریکہ کے حوالے کردیئے۔ اسی کا ردعمل ہمیں اپنے 70 ہزار سے زائد شہریوں کی جانوں کی قربانی اور اربوں ڈالر کے مالی نقصانات کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ اسکے باجودامریکہ ہم سے مطمئن نہیں ہوا اور اس نے ڈومور کے تقاضے بڑھاتے بڑھاتے پاکستان کی سلامتی کیلئے بھی سنگین خطرات پیدا کردیئے ہمارے ساتھ ٹرمپ انتظامیہ کا رویہ دشمنوں جیسا ہی رہا ہے اور گزشتہ سال ہی جب امریکہ کو افغانستان سے اپنی فوجوں کی محفوظ واپسی کیلئے جنگجو افغانیوں اور طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی مجبوری لاحق ہوئی تو ٹرمپ انتظامیہ کو اس کیلئے پاکستان کی اہمیت کا احساس ہوا چنانچہ اسکے ساتھ اعتماد سازی کی بحالی کے اقدامات اٹھائے جانے لگے۔ ابھی پاکستان امریکہ تعلقات کشیدگی کی فضا سے مکمل طور پر باہر نہیں نکل پائے کہ اب امریکہ نے ایران کے ساتھ تنازعہ پیدا کرکے خطے میں نئی جنگ کے خطرات لاحق کردیئے ہیں جس میں لامحالہ امریکہ کی خواہش ہوگی کہ پاکستان پہلے کی طرح فرنٹ لائن اتحادی کی صورت میں اسکے ساتھ کھڑا ہو جائے پاکستان امریکہ کیلئے پہلے والے کردار کا ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ اسے پہلے ہی بھارت کی جانب سے اپنی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ مناسب ہے کہ اب پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرکے خطے کی پیدا شدہ سنگین صورتحال پر سیرحاصل بحث مباحثہ کیا جائے اور ملکی سلامتی کے تقاضوں اور قومی مفادات کو پیش نظر رکھ کر ایک جامع قومی پالیسی کا اعلان کر دیا جائے

اپنا تبصرہ لکھیں