اپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
باعث افتخار۔ افتخار انجنیئر افتخار چودھری
یہ الفاظ آج کے حالات کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں یہ تاثر کیوں دیا جا رہا ہے کہ ہم فوج کے خلاف ہیں؟ جب ہمارے قائد عمران خان نے بارہا کہا ہے کہ فوج ہماری ہے اور ہم فوج کے ہیں، تو پھر ہمیں بار بار غداری کے طعنے کیوں دیے جا رہے ہیں؟
ہم وہی لوگ ہیں جنہوں نے اس ملک کے لیے قربانیاں دیں، جنہوں نے 1947 کی ہجرت میں خون بہایا، جن کے آباؤ اجداد نے 1965، 1971 اور کارگل کی جنگوں میں اپنی جانیں نچھاور کیں۔ ہماری نسلوں نے ہمیشہ پاکستان کی حفاظت کو اپنی اولین ترجیح بنایا۔ میانوالی، چکوال، ہزارہ، آزاد کشمیر—یہ سب علاقے ہمیشہ سے فوج کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ ہمارے بچے فوجی بنتے ہیں، ہمارے جوان وردی پہن کر ملک کی حفاظت کے لیے جانیں دیتے ہیں، پھر بھی ہمیں شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے؟
یہ رویہ نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ دشمن کی چالوں کو تقویت دینے کے مترادف بھی ہے۔ جب آپ اپنے ہی لوگوں کو غدار قرار دیں گے تو ردِعمل میں کچھ نہ کچھ ہوگا۔ ہم نے کبھی منظور پشتین کو نہیں مانا، کبھی بلوچ علیحدگی پسندوں کا ساتھ نہیں دیا، کبھی پاکستان کے خلاف کھڑے ہونے والوں کے بیانیے کو سپورٹ نہیں کیا، پھر بھی ہمیں غداری کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا رہا ہے؟
مجھے یاد ہے جب 1971 کی جنگ کے بعد جنرل مجید ملک کی قیادت میں ہماری فوج نے قیصر ہند فتح کیا تو میں اس جنگ میں شامل ایک لانس نائک کے ساتھ تصویر کھنچوا کر لایا تھا، جو آج بھی میرے ڈرائنگ روم میں آویزاں ہے۔ ہم فوج سے محبت کرتے ہیں، ہم نے ہمیشہ اپنے شہداء کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے، لیکن کیا یہ کافی نہیں؟
آج اگر آئی ایس پی آر اسکولوں اور کالجوں میں جا کر اپنی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو انہیں سوچنا چاہیے کہ اصل مسئلہ کہاں ہے۔ عوام کی رائے کا احترام ضروری ہے، اگر 8 فروری کو عوام نے مینڈیٹ دیا تھا تو اس کا احترام کیا جائے۔ اب تو فائز عیسیٰ بھی کہہ رہے ہیں کہ “مجھے دباؤ میں آ کر فیصلے دینے پڑے”—تو پھر سوال یہ ہے کہ دباؤ ڈالا کس نے؟
یہ صرف ہمارے ملک کا مسئلہ نہیں۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ میں 2012 میں یوکرین گیا تو وہاں ہر گھر میں ایک خاص درخت لگا نظر آیا۔ گائیڈ نے بتایا کہ جب زارِ روس نے وہاں ظلم کیے، تو لوگوں نے مزاحمت کے طور پر یہ درخت لگانا شروع کر دیا۔ روسی حکومت نے اس درخت کو ایک خطرہ قرار دیا، کہا کہ اس کی ہوا زہریلی ہے، اس سے بیماریاں پھیلیں گی۔ مگر لوگوں نے ضد میں آ کر مزید درخت لگا دیے۔ آج بھی وہ درخت یوکرین کے شہروں میں موجود ہیں، جو ایک علامت کے طور پر کھڑے ہیں کہ ظلم اور ناانصافی کے خلاف لوگ خود ہی مزاحمت کرنے لگتے ہیں۔
یہی حال پاکستان میں ہو رہا ہے۔ ہم نے بار بار کہا کہ ہم فوج کے ساتھ ہیں، مگر ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ہمیں دیوار سے نہ لگائیں، ہمیں دشمن نہ بنائیں۔ ہم پاکستان کے دشمنوں کے دشمن ہیں۔ ہم وہی ہیں جو فوجی شہداء کی قبروں پر جا کر دعا کرتے ہیں، جو داتا گنج بخش ہجویری کے دربار پر، سیال شریف کے آستانے پر اور خواجہ فرید کے مزار پر حاضری دیتے ہیں، ملک کی سلامتی کی دعائیں مانگتے ہیں۔ لیکن کیا وفاداری کا صلہ یہی ہے؟
کل میں گجرانوالہ گیا تھا، باغبان پورہ میں ڈاکٹر شمس کی دکان کے پاس کھڑا تھا۔ میں نے ارشد بھٹی اور فاروق کو کہا کہ یہی وہ ڈاکٹر شمس ہے جس کی آواز میں نے ریڈیو پر سنی تھی۔ اس وقت کسی نے کہا تھا کہ “آج کسی کی ہار ہوئی ہے، کسی کی جیت ہوئی ہے، رہے گا خوشی کا گیت!” لیکن ساتھ ہی عمران خان کا یہ جملہ بھی گونج رہا تھا کہ “یہ جنگ جاری رہے گی، کھیت اور کھلیان تمہارے، ہمارے بچے اے پی ایس کے شہزادے ہمیں یاد ہیں، بہت بدلہ 16 دسمبر 1971 کا لینا ہے اور یہ بدلہ ہمیں تمہارے ساتھ مل کر لینا ہے!”
ایس پی آر کے دوستو! ہم وہی لوگ ہیں جو آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم نے دشمنوں کے سر فٹبال بنتے دیکھے، ہم نے زخم کھائے مگر کبھی غداری کا سوچا بھی نہیں۔ ہمیں دشمن نہ سمجھیں، ہمیں ساتھ رکھیں۔ یہ جو زرداری اور نواز شریف جیسے لوگ ہیں، یہ وقت آنے پر مفتی بانی بن جائیں گے اور آپ کو تنہا چھوڑ دیں گے۔ ہم وہی لوگ ہیں جو آج بھی اس ملک کے لیے جیتے ہیں اور اس کے دشمنوں کے خلاف کھڑے ہیں۔
ساڑھے تین سال ہمیں حکومت دی، پھر جبراً نکال دیا گیا۔ ہمارے قائد کو جیل میں ڈالا گیا، ہمارے کارکنوں کو قید و بند کی صعوبتیں سہنی پڑیں، مگر ہم نے ملک کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا۔ ہم نے ہر موقع پر اپنی وفاداری ثابت کی، پھر بھی ہمیں غیرمحفوظ سمجھا جا رہا ہے؟
اور ہاں، یہ جو منتوں ترلوں والی بات ہے نا، یہ ہمارے بس کی نہیں۔ ہم چوہدری ہیں اور چوہدری والا کام کرنا جانتے ہیں۔ ہر جگہ جاتے ہیں، ڈھول پیچھے بجتا ہے۔ ہم اپنا حق لینا جانتے ہیں، ہمیں کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں عزت سے جینا اور عزت سے مرنا آتا ہے۔
ہم اپیل نہیں کرتے، ہم راستہ دکھاتے ہیں۔ دشمنوں کو سبق سکھانے کے بجائے ان کی چالوں کو سمجھیں۔ اپنوں کو دھتکارنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، بلکہ اس سے صرف دشمن فائدہ اٹھائیں گے۔ ہمیں دشمن بنانے کے بجائے دوست سمجھیں، کیونکہ جب اپنے ہی دھتکارے جاتے ہیں تو وہی تاریخ کے بڑے سانحات کا سبب بنتے ہیں۔
اپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی