قربانی، جبر اور استقامت کی علامتباعثِ افتخار: انجینئر افتخار چودھری

یہ کوئی معمولی دن نہیں تھا۔ 19 مارچ کی تاریخ جیسے میری زندگی میں ایک سنگ میل بن گئی ہو، جیسے کسی پرانی داستان کی تلخ حقیقت میرے مقدر میں لکھی گئی ہو۔ ایک دن 1940 کا تھا، جب خاکسار تحریک کے جاں نثاروں پر قیامت ٹوٹی، اور دوسرا 2002 کا جب مجھے، جو ایک حق گو صحافی تھا، مشرفی آمریت کے اشارے پر سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانے کی ایما پر اٹھوا کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ الزام؟ بس یہی کہ میں نواز شریف کا ساتھی تھا، اور ان دنوں مزاحمت کی علامت نواز شریف ہی تھے، جبکہ عمران خان، جنہیں میں آج اپنا قائد مانتا ہوں، مشرف کے ریفرنڈم کی حمایت کر رہے تھے۔ تقدیر کے کیسے عجیب رنگ ہیں کہ وقت نے کس طرح پہلو بدلا اور ہم کہاں سے کہاں آن کھڑے ہوئے۔
یہ جیل نہیں تھی، ایک ٹرانزٹ کیمپ تھا، مگر قید بہرحال قید ہوتی ہے۔ وہاں مجھے عظمت نیازی، وسیم صدیقی، آفتاب مرزا، نعیم بٹ اور مسعود پوری جیسے ہم فکر ساتھی ملے۔ ہم سب ایک نظریے کے قیدی تھے، وہ نظریہ جو جبر کے سامنے سر جھکانے سے انکار کرتا تھا، جو حق کے چراغ کو بجھنے نہیں دیتا تھا۔ ہمیں سعودی حکام نے قیدیوں کی طرح نہیں بلکہ احترام کے ساتھ رکھا، یہاں تک کہ جب مجھے وہاں داخل کیا گیا تو نہ فنگر پرنٹ لیے گئے، نہ وہ رسمی کارروائیاں جو کسی کو مکمل طور پر بلیک لسٹ کر سکتی تھیں۔ میں آج بھی اس لیفٹیننٹ زیارانی کو سلام پیش کرتا ہوں، جس نے نہ صرف میرے ساتھ عزت و وقار کا برتاؤ کیا بلکہ مجھے اپنی خودداری کی حرارت میں کمی محسوس نہ ہونے دی۔
جیل کی تاریکیوں میں سب سے بڑی آزمائش میری روح پر اس لمحے گزری جب ایک رات میری ماں خواب میں آ کر مجھے بلا رہی تھی: “بیٹا، آ جاؤ!” وہ لمحہ میرے لیے وہی تھا جیسے کسی پیاسے کو ریگستان میں سراب نظر آتا ہے۔ دل کے اندر کچھ ٹوٹا، جیسے کوئی نازک شیشے کی دیوار تھی جو لمحہ بھر میں بکھر گئی۔ میں نے فوراً واپسی کا ارادہ کیا، کیونکہ یہ قید، یہ انتظار، یہ جبر میری ماں کی محبت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھا۔ جب میں پاکستان لوٹا اور والدہ نے میری حالت دیکھی، میرے لمبے الجھے ہوئے بال دیکھے جو جیل کی سختیوں کی گواہی دے رہے تھے، تو ان کے دل پر ایسا بوجھ پڑا کہ وہ اسے زیادہ دن سہہ نہ سکیں۔ ہری پور کے ہمارے گاؤں میں ایک دن انہیں برین ہیمرج ہوا، اور وہ اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ لوگ جمہوریت کے لیے قربانیاں دیتے ہیں، میں نے اپنی ماں کو قربان کیا۔
وقت گزرتا گیا، آزمائشیں بڑھتی رہیں، مگر میرے حوصلے کو شکست نہ ہوئی۔ نواز شریف، جن کے لیے میں نے سب کچھ جھیلا، کل تک میرا احوال پوچھتے تھے، دعائیں دیتے تھے، اور آج انہی کے خاندان میں کچھ لوگ ہمیں نظر انداز کرتے ہیں، بلکہ ہمیں دیوار سے لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک وقت کا جبر ہے کہ مریم نواز، جو کبھی میری ماں کی دعائیں لینے آتی تھیں، آج وہی ہمیں بے بس کرنے پر تُلی ہوئی ہیں۔
لیکن ہم وہ لوگ نہیں جو وقت کے تھپیڑوں سے گھبرا جائیں۔ قیدی نمبر 804 کے ساتھ کھڑے ہونے کا عہد کیا تھا، تو آج بھی اسی عزم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سعودی عرب سے لوٹنے کے بعد، خاص طور پر 2007 کے بعد، میں نے ایک اور فیصلہ کیا۔ میں نے اس کارواں میں شمولیت اختیار کی جو ایک نئے پاکستان کا خواب دیکھ رہا تھا، ایک ایسی جدو جہد جو ملک کو غلامی سے نکال کر خودداری کی راہ پر ڈال دے۔
1992 میں میں نے شوکت خانم کے لیے عمران خان کے ساتھ کھڑے ہو کر مدد کی، مگر 2007 میں میں نے اس کے قافلے میں شامل ہو کر اپنی زندگی کے مقصد کو ایک نیا رخ دیا۔ جب عمران خان نے مجھے جھنڈا تھمایا، تو ان کی آنکھوں میں ایک چمک تھی، ایک اعتماد تھا۔ وہ مسکرا کر بولے:
“آپ نے اٹالین سوٹ تو بہت پیارا پہنا ہوا ہے، Raybon کی عینک بھی اچھی ہے لگائی ہوئی ہے اور خوبصورت ہو بھی تم، لیکن یہ جھنڈا تھام کے رکھنا۔”یاد رکھنا یہ مشکل راستہ ہے
اور میں نے کہا کہ عمران خان یہ ایک گجر کا ہاتھ ہے کٹ سکتا ہے جھک نہیں سکتا اور یہ جھنڈا اب میں تیسری نسل کے ہاتھ میں دیکھ رہا ہوں
اور میں یہ بھی بتا دوں کہ اپ کا نظریہ سچ کا نظریہ ہے اور اس کی گواہی احسن رشید نے دی ہے تو میں اپ کا ساتھ دے رہا ہوں
یہ جھنڈا صرف ایک کپڑے کا ٹکڑا نہیں تھا، یہ ایک نظریہ تھا، ایک تحریک تھی، ایک قسم تھی جو میں نے کھائی اور آج تک الحمدللہ نبھا رہا ہوں۔ اور یہ پرچم صرف میرے ہاتھوں میں نہیں رہا، میں نے اپنی نسلوں تک اسے پہنچایا ہے۔ میرا بیٹا نوید افتخار آج بھی اسی مشن پر گامزن ہے، اور ہماری تیسری نسل، ریحان، بھی اسی جھنڈے تلے کھڑی ہے۔ یہ ایک سیاسی وابستگی نہیں، بلکہ ایک نظریاتی ورثہ ہے، ایک مشن ہے جو نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے۔
یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ یہ وہی جنگ ہے جو 19 مارچ 1940 کو خاکساروں نے لڑی تھی، یہ وہی جنگ ہے جو 2002 میں سعودی جیلوں میں لڑی گئی، اور یہ وہی جنگ ہے جو آج بھی جاری ہے۔ ہم آج بھی ظلم کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں، ہم آج بھی اپنے نظریے پر قائم ہیں، اور ہم آج بھی اسی مشن کے ساتھ کھڑے ہیں جس کے لیے ہم نے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ وقت بدلتا ہے، تخت الٹتے ہیں، ظالم انجام کو پہنچتے ہیں، مگر جو لوگ سچ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ امر رہتے ہیں۔ ہم نے اپنا راستہ چن لیا ہے، اور اب ہمیں کوئی طاقت اس راہ سے ہٹا نہیں سکتی

اپنا تبصرہ لکھیں