بانی قوم اگر اج زندہ ہوتے۔۔۔ باعث افتخار۔ انجنیئر افتخار چودھری

بانی قوم اگر اج زندہ ہوتے۔۔۔ باعث افتخار۔ انجنیئر افتخار چودھری
یقین کیجیے اگر قائد اعظم آج کے دور میں پھر زندہ ہو جاتے تو حالت زار دیکھ کر پھر وہ دنیا سے منہ موڑ لیتے۔جناح کنونشن سینٹر میں دنیا بھر سے،، کرائے کے سامعین،،، لا کر انہیں جھوٹ سنانے کی سزا یالہ باری اور برف کے گولے آسمان سے جو برسے ہیں یہ اسی گناہ کبیرہ کا نتیجہ ہے
آج جب غزہ کی زمین پر خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں، معصوم بچوں کے جسموں کے پرخچے اُڑ رہے ہیں، مائیں اپنی گود اجاڑ رہی ہیں، تو دنیا کی آنکھیں بند ہیں۔ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان، جو کبھی مظلوموں کا نعرہ بلند کرتا تھا، آج سفارتی مصلحتوں کے پردے میں اپنے اصولی مؤقف سے پیچھے ہٹ چکا ہے۔کبھی جو بقول شاہ فیصل شہید اسلام کا قلعہ تھا آج وہ ورکشاپ کا چھوٹو بن کے رہ گیا ہے
پاکستانی حکومت نے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں جو مؤقف اپنایا، وہ پاکستان کی اس تاریخی اور نظریاتی شناخت کے خلاف ہے جس کی بنیاد “اسلام کے قلعے” کے طور پر رکھی گئی تھی۔ جو قرارداد منظور کی گئی یا جس میں “بیلنس” کے نام پر ظالم اور مظلوم کو ایک ہی صف میں کھڑا کیا گیا — یہ ایک قابلِ مذمت اقدام ہے۔
اگر آج قائد اعظم محمد علی جناح زندہ ہوتے، تو وہ ان حکمرانوں کو اس بدترین غفلت اور کمزوری پر سخت تنبیہ کرتے۔ وہ شخص جس نے اعلان کیا تھا:
“ہم اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ وہ ایک ناجائز ریاست ہے”میرے فلسطینی بھائیو خدارا یہ جو اقدام ہماری حکومت اٹھا رہی ہے اس کو غمی تائید حاصل نہیں ہے ہمیں معاف کر دینا ہمارے ہاتھوں میں کشکول ہے اور ہم در در کی بیگ مانگ رہے ہیں صرف انہی حکمرانوں کی وجہ سے ہم ذلیل و خوار ہو رہے ہیں ہمیں برا مت سمجھنا ہم مجبور ہیں۔
کیا آج اس کے وارثین اس کے نظریے کو دفن کر رہے ہیں؟
قائد اعظم ایک اصولی، نظریاتی اور جرات مند قیادت کے علمبردار تھے۔ اگر ان کے نقشِ قدم پر چلنے والی قیادت آج اقتدار میں ہوتی، تو کبھی ایسا مؤقف اختیار نہ کیا جاتا۔ پاکستان، جو ہمیشہ فلسطین کے ساتھ کھڑا رہا، آج کیوں “بیلنس” کے نام پر اپنی نظریاتی پوزیشن کو دھندلا رہا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
“وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ”
(سورہ ہود: 113)
“اور تم ان لوگوں کی طرف نہ جھکو جنہوں نے ظلم کیا، ورنہ تمہیں آگ چھو لے گی۔”
جب قرآن یہ درس دے رہا ہے کہ ظالم سے بھی تعلق رکھنا تباہی کا باعث ہے، تو ہم کس دلیل پر “بیلنس” تلاش کر رہے ہیں؟ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا صرف ایک سفارتی مؤقف نہیں، یہ ایمان کا تقاضا ہے۔
آج دنیا کے مختلف ممالک، یہاں تک کہ مغربی اقوام کے طلبہ اور عام شہری، فلسطینیوں کے حق میں سڑکوں پر ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، یورپ میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ لیکن افسوس! پاکستانی قیادت یا تو خاموش ہے یا پھر ایسی قراردادوں کی حمایت کر رہی ہے جو فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔
علامہ اقبال نے کہا تھا:
“اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مردِ مسلماں بھی کافر و زندیق”
یہ وقت عشق کا ہے۔ عشقِ مصطفیٰ، عشقِ عدل، عشقِ انسانیت۔ اگر ہمارے دل ایمان کی حرارت سے خالی ہو چکے ہیں، تو ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں۔
اگر آج پاکستان میں قائد اعظم جیسے سچے، نڈر اور نظریاتی رہنما موجود ہوتے — جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصولوں پر چلتے، جن کا دل امت کے درد سے لبریز ہوتا — تو اسرائیل کی جرات نہ ہوتی کہ وہ یوں کھلے عام دہشت گردی کرتا۔ پاکستان کی گرجدار آواز ظلم کی دیواروں کو لرزا دیتی۔
لیکن آج ہمارے حکمران عالمی طاقتوں کی خوشنودی کے اسیر ہیں، فلسطین کے درد سے بے نیاز۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ہمیں رک کر سوچنا ہوگا: ہم کس کے ساتھ کھڑے ہیں؟ مظلوم کے، یا مصلحت کے؟
اب بھی وقت ہے۔ ہمیں اپنے ضمیر کو جگانا ہوگا۔ ہمیں قائد کے راستے پر واپس آنا ہوگا۔ ورنہ تاریخ ہمیں غداروں کی فہرست میں لکھے گی۔ہم دنیا بھر سے اکٹھے کیے گئے کرائے کے سامعین کو جناح کنونشن سینٹر میں جمع کر کے جھوٹ سچ کے اوپر تالیاں تو بھجوا سکتے ہیں لیکن اپنے رب کے ہاں اور اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاں ہم مجرم ہیں ہم مجرم

“ظلم کے خلاف خاموشی، ظلم کی حمایت ہے